امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بش دور کے کٹر نظریات کے حامل اور ماہر سفارتکار جان بولٹن کو قومی سلامتی کا نیا مشیر تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہ ایچ آر مک ماسٹر کی جگہ یہ عہدہ سنبھالیں گے۔
تصویر: Getty Images/D. McCollester
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جان بولٹن کو قومی سلامتی کا نیا مشیر تعینات کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ ایچ آر مک ماسٹر کی جگہ یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں مک ماسٹر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ ان کے اچھے دوست رہیں گے۔
سابق ماہر سفارت کار بولٹن ایران اور شمالی کوریا پر حملے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اس عہدے پر تعینات رہتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ مسائل کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کے پاس تمام آپشنز موجود ہوں۔ ٹرمپ کے چودہ ماہ کے اقتدار کے دوران بولٹن ان کے تیسرے مشیر ہوں گے۔
69 سالہ ری پبلکن سیاستدان بولٹن سفارتکاری کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ ماضی میں سابق صدور رونالڈ ریگن، جارج ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش کی حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ بولٹن اُس ٹیم میں شامل تھے، جس نے اصرار کیا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم بعد ازاں یہ بات غلط ثابت ہوئی تھی۔
بولٹن عراق جنگ کے حامی تھے جبکہ وہ اپنے کئی مضامین میں اس بات پر بھی زور دے چکے ہیں کہ شمالی کوریا اور ایران کے خلاف عسکری کارروائی کی جانا چاہیے۔ ری پبلکن سیاستدان لنڈے گراہم نے بولٹن کی اس تعیناتی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیشرفت امریکا کے اتحادیوں کے لیے ایک اچھی جبکہ دشمنوں کے لیے بری خبر ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق بولٹن کو اس عہدے پر فائز ہونے کے لیے سینیٹ کی اجازت درکار نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ انیس اپریل سے قومی سلامتی کے مشیر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ وائٹ ہاؤس میں یہ عہدہ انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔
قومی سلامتی کو مشیر امریکی صدر کو ملکی اور غیر ملکی مسائل کے بارے میں تجاویز پیش کرتا ہے۔ اس عہدے پر تعینات اہلکار پالیسی سازی میں دفاع اور خارجہ سمیت مختلف وزراتوں کے ساتھ رابطہ کاری بھی کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی ٹرمپ نے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی جگہ مائیک پومپیو کا تقرر کیا تھا۔
ع ب/ ص ح / اے ایف پی
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔