برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق مرغی کے گوشت کو پانی سے دھویا جانا ’کامپیلو بیکٹر‘ نامی بیکٹریا کے پھیلاؤ اور غذائی زہریت یعنی ’فوڈ پوائزننگ‘ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اشتہار
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے ماہرین کے مطابق گوشت کو ٹونٹی کے نیچے پانی سے دھونے سے اس میں موجود بیکٹیریا ہاتھوں، کپڑوں اور کھانے کے برتنوں میں بھی پھیل جاتا ہے۔
گوشت کو دھوتے وقت پانی کے چھینٹے ہر سمت میں پچاس سینٹی میٹر تک پڑتے ہیں اور اپنے ہمراہ ’کامپیلو بیکٹر‘ بھی لے جاتے ہیں۔ اس بیکٹیریا کے محض چند سیل ہی ’فوڈ پوائزننگ‘ کا سبب بن جاتے ہیں۔
ایک تازہ سروے برطانیہ میں فروخت ہونے والے مرغی کے پچاس فیصد سے زائد گوشت میں یہ بیکٹیریا موجود تھا۔
پاکستان کی بات کی جائے تو سن 2014 اور سن 2015 میں کی گئی ایک تحقیق میں لاہور میں فروخت ہونے والے مرغی، بکرے اور گائے کے گوشت کے چھ سو سے زائد نمونوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔
گزشتہ برس ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والے اس تحقیقی مضمون کے مطابق گوشت کے ان سب نمونوں میں مجموعی طور پر بیس فیصد سے زائد میں ’کامپیلو بیکٹر‘ نامی بیکٹیریا موجود تھا اور سب سے زیادہ بیکٹیریا مرغی کے گوشت (انتیس فیصد) میں پایا گیا تھا۔
بیکٹیریا بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
این ایچ ایس نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے یہ چار تجاویز درج کر رکھی ہیں۔
کچے گوشت کو لپیٹ کر فرج میں رکھیں
کچے گوشت کو اس طرح کسی چیز میں لپیٹیں کہ اس میں سے رسنے والا پانی باہر نہ نکلے۔ علاوہ ازیں فریج میں بھی اسے سب سے نچلے خانے میں رکھا جائے تاکہ اس میں سے رسنے والی بوندیں کھانے کی دوسری اشیا تک پہنچ کر انہیں زہر آلود نہ کر دیں۔
پانی سے ہر گز مت دھوئیں
گوشت کو جب پکایا جائے گا تو اس میں موجود بیکٹیریا بھی خود بخود مر جائیں گے اس لیے اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
برتنوں کو اچھی طرح دھو لیں
کچے گوشت کو کاٹنے کے لیے استعمال کردہ چھری اور دیگر برتن اچھی طرح دھوئیں۔ ہاتھوں کو بھی گرم پانی اور صابن سے دھوئیں۔ یوں کامپیلو بیکٹر کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
گوشت اچھی طرح پکائیں
کھانے سے پہلے یقینی بنائیں کہ گوشت اچھی طرح سے پکایا گیا ہے اور اس کے اندر کوئی گلابی یا سرخ حصہ باقی نہیں رہا۔
ایسے جیو گے تو کیسے جیو گے؟
بہت سے جرمن شہری خود کو صحت مند تو سمجھتے ہیں، مگر ملک کی نصف سے زائد آبادی تجویز کردہ ورزش سے بھی کم کثرت کرتے ہیں۔ دفتر کی کرسی سے گھر کے صوفے پر بیٹھے رہے، تو جئیں گے کیسے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Krämer
ہم زیادہ چل پھر نہیں رہے
جرمن شہریوں کی صحت اس وقت تاریخ میں بدترین سطح پر ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق نو فیصد سے بھی کم آبادی ہے، جو مکمل طور پر صحت افزا طرز زندگی سے وابستہ ہے۔ اوسطاﹰ جرمن شہری کوئی ساڑے سات گھنٹے یومیہ بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ مگر صرف جرمن ہی اس انداز کی غیرصحت بخش زندگی نہیں گزار رہے، یہ رجحان پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Krämer
کیا بیٹھے رہنا نئی طرز کی تمباکونوشی ہے؟
حالیہ کچھ برسوں میں بیٹھے رہنے کو سنجیدہ طبی نقصانات کی وجہ سے’نئی طرح کی سگریٹ نوشی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ گو کہ تمام سائنس دان اس بات پر متفق نہیں کہ اسے تمباکونوشی جیسا مضر قرار دیا جائے۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے کم بلڈپریشر، نظام دوران خون میں خرابی، سرطان، دل کے امراض اور ذیابطیس جسے امراض سے تعلق واضح ہے۔
یوں تو بیٹھنے کے مختلف انداز کے اثرات مختلف ہیں۔ مگر سائنس دانوں کے مطابق دفتر میں کرسی پر بیٹھنے کے صحت پر مضر اثرات گھر میں صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے جیسے نہیں ہیں۔ مستقبل بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے اور قبل از وقت موت، ٹائپ ٹو ذیابیطیس اور دل کے امراض کے درمیان گہرا تعلق دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Photographee.eu - Fotolia
کم زوری میں اضافہ
سائنسی رپورٹ کے مطابق ایسی خواتین جو زیادہ وقت بیٹھی رہیں، وہ جسمانی کم زوری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یعنی ایسی خواتین کو کسی بیماری سے باہر نکلے یا کسی گھاؤ کے بھرنے میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس جسمانی نقصان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے حرکت شرط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Eisenhuth
بیٹھیے کم، چلیے زیادہ
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مجموعی نشستی وقت قبل ازوقت موت کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔ محققین کے مطابق اگر کوئی شخص ایک نشست پر تیس منٹ سے کم وقت تک بیٹھے، تو اس سے کئی معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تیس منٹ بیٹھنے کے بعد پانچ منٹ کی واک یا حرکت ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/PhotoAlto/E. Audras
کھڑے ہو کر کام کرنے والے ٹیبل
دفتروں میں کام کرنے والے افراد ایک طویل وقت ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ تاہم اب ایسے دفتری ٹیبل متعارف کرائے جا رہے ہیں، جنہیں کھڑے ہو کر کام کرنے کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ محققین کا تاہم کہنا ہے کہ ایک ہی مقام پر کھڑے رہنے سے کوئی شخص زیادہ توانائی خرچ نہیں کرتا، اس لیے یہ نسخہ زیادہ کارآمد نہیں۔
تصویر: picture-alliance
چلو اب اٹھ کھڑے ہو
آپ جتنا کم وقت بیٹھیں گے، آپ کی صحت اتنی ہی بہتر ہو گی۔ ماہرینِ صحت کے مطابق بہتر صحت کے لیے دل کی رفتار کو بڑھانا ضروری ہے، جو حرکت سے ممکن ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر ڈیڑھ سو منٹ عمومی ورزش یا 75 منٹ سخت جسمانی وزرش صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔