1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کچھوے کا گوشت کھانے سے سات بچے ہلاک

عابد حسین
17 جنوری 2018

سمندری کچھوے کئی ملکوں کے لوگ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ سمندری کچھووں کی بعض اقسام انتہائی زہریلی ہونے کی وجہ سے جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔

Meeresschildkröte
تصویر: Getty Images/AFP/X. Leoty

بحر ہند کے جزیرے مڈغاسکر میں ایک مخصوص نسل کے کچھوے ایک محفوظ سمندری نسل تصور کیے جاتے ہیں۔ حکومت نے ان کی حفاظت کا خاص انتظام کر رکھا ہے لیکن بعض اوقات اس جزیرے کے باسی ڈھکے چھپے انداز میں ان سمندری کچھووں کا شکار کرنے سے باز نہیں رہتے۔

پاکستان: کچھوے کا ہزاروں کلوگرام گوشت پکڑا گیا

ماحولیاتی تبدیلی کچھووں کی افزائش کے لیے بڑا خطرہ

کچھوے کے پیٹ میں چھپا ’خزانہ‘ نکالنے کے بعد اس کی تربیت

گرین ٹورازم: نئے ماحول دوست اقتصادی امکانات

مڈغاسکر کے حکام کے مطابق سات بچے سمندری کچھوے کا زہریلا گوشت کھانے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان میں دو ایسے کم سن بھی ہیں جو اپنی ماؤں کے دودھ پر گزارہ کرتے تھے۔ طبی حکام  کے مطابق کچھوے کے گوشت کا زہر بڑے عمر کے لوگ تو برداشت کر گئے لیکن بچوں کے لیے وہ جان لیوا ثابت ہوا۔

سمندری کچھوے کا گوشت کھانے کے بعد ہلاک ہونے والے بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا گیا ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق مڈغاسکری طبی محکمے کے ایک میڈیکل انسپکٹر نے بتایا ہے کہ جو انتہائی کم سن بچے مرے ہیں، اُن کی ماؤں نے اس زہریلے کچھوے کا گوشت کھایا تھا۔

مڈغاسکر میں حکومت نے عام لوگوں کے لیے یہ ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ ایک مخصوص نسل کے کچھوے کے گوشت کو کھانے سے ہر ممکن طریقے سے اجتناب کریں۔ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کچھوے زیر سمندر پتھریلی چٹانوں پر اُگی ہوئی زہریلی نباتاتی کائی (Algae) کھاتے ہیں۔ یہ کائی اگر کچھوے نے زیادہ مقدار میں کھائی ہو تو اُس کا گوشت کھانے والے انسان کے لیے بعض اوقات يہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

مڈغاسکر میں اِس ایک مخصوص سمندری کچھوے کا گوشت بڑے شوق و ذوق سے کھایا جاتا ہےتصویر: imago

مڈغاسکر میں اِس ایک مخصوص سمندری کچھوے کا گوشت بڑے شوق و ذوق سے اس لیے کھایا جاتا ہے کہ اسے ایک پرتکلف ڈِش (Delicacy) سمجھا جاتا ہے۔ اس کچھوے کا شکار عموماً نومبر سے مارچ کے دوران کیا جاتا ہے۔

مڈغاسکر کے محکمہ صحت کی ڈائریکٹر مانیترا روکوتواریوونی (Manitra Rakotoarivony) کا کہنا ہے کہ اس کچھوے کا گوشت کھانے کے بعد لوگوں کو زہر خورانی کے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ روکوتواریوونی کے مطابق لوگوں کو اس تناظر میں کئی مرتبہ متنبہ کیا جا چکا ہے لیکن وہ شکار سے گریز نہیں کرتے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں