سمندری کچھوے کئی ملکوں کے لوگ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ سمندری کچھووں کی بعض اقسام انتہائی زہریلی ہونے کی وجہ سے جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔
اشتہار
بحر ہند کے جزیرے مڈغاسکر میں ایک مخصوص نسل کے کچھوے ایک محفوظ سمندری نسل تصور کیے جاتے ہیں۔ حکومت نے ان کی حفاظت کا خاص انتظام کر رکھا ہے لیکن بعض اوقات اس جزیرے کے باسی ڈھکے چھپے انداز میں ان سمندری کچھووں کا شکار کرنے سے باز نہیں رہتے۔
مڈغاسکر کے حکام کے مطابق سات بچے سمندری کچھوے کا زہریلا گوشت کھانے سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان میں دو ایسے کم سن بھی ہیں جو اپنی ماؤں کے دودھ پر گزارہ کرتے تھے۔ طبی حکام کے مطابق کچھوے کے گوشت کا زہر بڑے عمر کے لوگ تو برداشت کر گئے لیکن بچوں کے لیے وہ جان لیوا ثابت ہوا۔
سمندری کچھوے کا گوشت کھانے کے بعد ہلاک ہونے والے بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا گیا ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق مڈغاسکری طبی محکمے کے ایک میڈیکل انسپکٹر نے بتایا ہے کہ جو انتہائی کم سن بچے مرے ہیں، اُن کی ماؤں نے اس زہریلے کچھوے کا گوشت کھایا تھا۔
مڈغاسکر میں حکومت نے عام لوگوں کے لیے یہ ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ ایک مخصوص نسل کے کچھوے کے گوشت کو کھانے سے ہر ممکن طریقے سے اجتناب کریں۔ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کچھوے زیر سمندر پتھریلی چٹانوں پر اُگی ہوئی زہریلی نباتاتی کائی (Algae) کھاتے ہیں۔ یہ کائی اگر کچھوے نے زیادہ مقدار میں کھائی ہو تو اُس کا گوشت کھانے والے انسان کے لیے بعض اوقات يہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
مڈغاسکر میں اِس ایک مخصوص سمندری کچھوے کا گوشت بڑے شوق و ذوق سے اس لیے کھایا جاتا ہے کہ اسے ایک پرتکلف ڈِش (Delicacy) سمجھا جاتا ہے۔ اس کچھوے کا شکار عموماً نومبر سے مارچ کے دوران کیا جاتا ہے۔
مڈغاسکر کے محکمہ صحت کی ڈائریکٹر مانیترا روکوتواریوونی (Manitra Rakotoarivony) کا کہنا ہے کہ اس کچھوے کا گوشت کھانے کے بعد لوگوں کو زہر خورانی کے واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں۔ روکوتواریوونی کے مطابق لوگوں کو اس تناظر میں کئی مرتبہ متنبہ کیا جا چکا ہے لیکن وہ شکار سے گریز نہیں کرتے۔
جانورں کی بڑے پیمانے پر اموات
جب ہزاروں جانور ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں، تو محققین زیادہ تر ایسی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
آکسیجن کی کمی
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
نہ مچھلی، نہ پرندوں کے لیے خوراک
گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Thiessen
کچھوؤں میں انفیکشن
گرین سی ٹرٹل یا سبز پانی کے کچھوے بہت بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بڑے کچھوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرین سی ٹرٹل ناپید ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ آج کل یہ کچھوے ایک خاص قسم کے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کچھوے کچھ کھا نہیں سکتے ہیں اور بہت مشکل سے ہی حرکت کر پاتے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں علم ہو سکا ہے کہ یہ انفیکشن اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
اس تھوتھنی والے ہرن نما جانور کو سیگا کہا جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ گزشتہ برس کی ابتدا میں دنیا بھر میں سیگا کی نصف تعداد اچانک مر گئی تھی اور وہ بھی صرف دو ہفتوں کے دوران۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ جانور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ایک سال میں ان کی نسل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک اس قسم کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
قیر ماہی بھی بھٹک رہے ہیں
جنوری 2004ء میں لاطینی امریکی ملک چلی کے ساحلوں پر ہزاروں قیر ماہی یا آکٹوپس راستہ بھٹک کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے رواں برس خود کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ محققین ان واقعات کی ذمہ داری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب محققین تشویش کا شکار بھی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قیر ماہی کی ہلاکتوں کے واقعات پہلے کبھی سامنے آئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ناقابل برداشت حدت
گزشتہ برس بھارتی شہر بھوپال میں اچانک بڑی تعداد میں چمگادڑیں مردہ حالت میں آسمان سے زمین پر گریں۔ اسی طرح 2014ء میں آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ میں بھی ایک لاکھ سے زائد چمگاڈریں ملی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو مردہ تھیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ گرمی کے معاملے میں یہ پرندہ انتہائی حساس ہے اور بہت زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
تصویر: Berlinale
وہیل مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکتیں
جرمنی ہو، امریکا ہو، نیوزی لینڈ یا پھر چلی۔ کئی دہائیوں سے ان ممالک میں متعدد وہیل مچھلیوں کی زندگی کا خاتمہ ساحلوں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس چلی کے ایک ساحل پر چار سو سے زائد وہیل مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اسی طرح رواں برس اب تک شمالی یورپ کے ساحلوں پر انتیس وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔