کھانا مانگنے والی بچی کو اڑتیس برس تک غلام بنا کر رکھا گیا
10 جنوری 2021
بھوک کی ماری کم سن بچی ماڈالینا گوردیانو نے جس گھر کے دروازے پر کھانے کے لیے دستک دی تھی، اسے اسی گھر میں اڑتیس سال تک غلام بنا کر رکھا گیا۔ اب اسے رہائی مل گئی ہے لیکن اس کی المناک داستان پر پورا برازیل شرمندہ ہے۔
اشتہار
ستائیس نومبر 2020ء کے روز لیبر انسپکٹر ہُمبیرٹو کاماسمیے اور ان کے ساتھیوں نے ایک عدالت کی طرف سے اجازت لینے کے بعد ایک گھر کی تلاشی لی۔ عام طور پر وہ صرف فیکٹریوں اور زرعی فارموں کی تلاشی لیتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ٹارگٹ ایک گھر تھا، وہ بھی برازیل کے وفاقی صوبے میناس گیرائس میں اور مقصد غلاموں کے سے حالات میں جبری مشقت کرنے والے ایک انسان کو رہا کروانا۔
یہ گھر پاتوس دے میناس نامی شہر میں ایک یونیورسٹی پروفیسر کا گھر تھا اور ہمسایوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس گھر میں کچھ نا کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔ ہمسایوں نے دیکھا تھا کہ جب بھی گھر کا مالک اپنی ملازمہ ماڈالینا کو کسی سے بھی بات کرتے دیکھتا، تو شدید ناراض ہوتا اور ماڈالینا سہم کر کانپنے لگتی تھی۔ پھر اس پروفیسر کے ہمسائے اس وقت اور بھی پریشان ہو گئے، جب ماڈالینا نے ایک دن ان کے گھر کے دروازے کے سامنے رکھی گئی چٹائی کے نیچے ایک چھوٹا سا تحریری پیغام اس منت کے ساتھ چھوڑا کہ اسے بطور خاتون حفظان صحت سے متعلق چند اشیاء کی ضرورت ہے اور بہت تھوڑی سی رقم کی بھی۔ اس طرح ماڈالینا کے حالات زندگی اور بھی مشکوک ہو گئے تھے۔
پانچ مربع میٹر رقبے والا کمرہ
لیبر انسپکٹر کاماسمیے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پروفیسر کے گھر پر چھاپا مارا، تو سب کچھ واضح ہو گیا۔ ماڈالینا وہاں غلاموں کی سی زندگی گزار رہی تھی۔ اسے نا کوئی مناسب اجرت ادا کی جاتی تھی اور نا ہی ملازمہ کے طور پر آمدنی کی حوالے سے اس کا کوئی ٹیکس ریکارڈ تھا۔ اس کے علاوہ اس کے کام کاج کے کوئی باقاعدہ طے شدہ اوقات بھی نہیں تھے اور اسے سال بھر کوئی چھٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ ماڈالینا پروفیسر دالٹن ریگیرا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتے ہوئے ایک ایسے کمرے میں رہتی تھی، جس کا رقبہ صرف پانچ مربع میٹر تھا اور جس میں کوئی کھڑکی بھی نہیں تھی۔
آج اس افریقی نژاد برازیلین خاتون شہری کو رہائی ملے چھ ہفتے ہو گئے ہیں۔ اس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ اس کا سونے کا کمرہ کمرہ کم اور جیل زیادہ تھا۔ اب وہ ایک ایسی رہائش گاہ میں رہتی ہے، جہاں اس کی سماجی بحالی کے لیے اس کی معاشرتی اور نفسیاتی مدد بھی کی جا رہی ہے۔
46 میں سے 38 سال غلاموں کی سی زندگی کے
آج ماڈالینا کی عمر 46 برس ہے۔ اسے کمر میں مستقل اور شدید درد رہتا ہے۔ 38 برس قبل ایک گھر کے دروازے پر کھانے کے لیے دستک دینے والی جس بھوکی بچی کو اسی گھر میں غلام بنا لیا گیا تھا، اس بچی کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ اس دن کے بعد کی تقریباً چار دہائیاں اس بچی کی زندگی کے انتہائی تکلیف دہ برس ثابت ہوئی تھیں۔
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
اپنی زندگی کا تقریباً 80 فیصد حصہ غلامی جیسے حالات میں گزارنے پر مجبور کر دی گئی ماڈالینا کا کہنا ہے، ''مجھے اب بہت کچھ نیا سیکھنا ہے۔ بینک کی کیش مشین سے رقم کیسے نکلواتے ہیں، کوئی موبائل فون کیسے استعمال کیا جاتا ہے اور مجھے تو ابھی تک یہ ہی سمجھ نہیں آ رہی کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے اور کیوں؟‘‘
ماضی میں غلامی کے دور کی میراث آج بھی باقی
برس ہا برس تک قید جیسے حالات میں جبری مشقت سے رہائی ملنے کے چند ہفتے بعد اکیس دسمبر 2020ء کو ماڈالینا کا ایک تفصیلی انٹرویو ٹی وی گلوبو نامی نشریاتی ادارے سے نشر ہوا تھا۔
اس انٹرویو کو دیکھ کر پورے کا پورا برازیلین معاشرہ شرمندہ ہو گیا تھا۔ اس لیے کہ ماڈالینا کی المناک کہانی سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس ملک میں ماضی میں انسانوں کو غلام بنا کر رکھنے کی روایت کی باقیات اب بھی پائی جاتی ہیں اور اس معاشرے میں نسل پرستی کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں۔
برازیل میں آج بھی ساڑھے تین لاکھ انسانوں کی زندگی غلاموں کی سی
انسانی حقوق کی تنظیم 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق برازیل میں آج بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسان ایسے ہیں، جو غلاموں کے سے حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا دن رات استحصال کیا جاتا ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن اور اس کی تاریخ
مزدور تنظیمیں اور تحریکیں گزشتہ 150 برسوں میں بہت کچھ حاصل کر چکی ہیں۔ اس کی جڑیں اس صنعتی دور سے جڑی ہوئی ہیں، جب مزدورں نے فیکڑی مالکان کے استحصالی رویے کے خلاف بغاوت کی تھی۔
تصویر: Getty Images
صنعتی انقلاب کے فائدے اور نقصانات
صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام پر برطانیہ میں ہوا۔ جہاں تکنیکی ترقی ہوئی ، وہاں سماجی بحرانوں نے بھی جنم لیا۔ صنعتی پیداوار کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مزدورں نے فیکٹری مالکان کے استحصالی طریقوں کے خلاف آواز بلند کی۔ سب سے پہلا احتجاج برطانیہ میں ہوا، جہاں مشینوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد نے توڑ پھوڑ کی۔
تصویر: imago/Horst Rudel
کمیونسٹ منشور
دوسری جانب صنعتی یونٹس میں کام کرنے والوں کے حالات بھی بُرے تھے۔ انہیں دن میں زیادہ وقت کام کرنا پڑتا، اجرت کم تھی اور حقوق نہ ہونے کے برابر۔ انہوں نے اتحاد قائم کیا۔ کارل مارکس (تصویر) اور فریڈرک اینگلز نے مظلوم کارکنوں کو ’کمیونسٹ منشور‘ نامی پروگرام دیا۔ اس کا مقصد طبقاتی تقسیم کو ختم کرتے ہوئے غریب طبقے کی متوسط طبقے کے خلاف جیت تھی۔
تصویر: picture-alliance /dpa
مزدور تحریک سے سیاسی تحریک
سن 1864ء میں پہلی مرتبہ مختلف مزدور تنظیمیں نے بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے اتحاد کیا۔ نتیجے کے طور پر ٹریڈ یونینز اور سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، مثال کے طور پر جنرل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن (ADAV) اور سوشل ڈیموکریٹک ورکرز پارٹی (SDAP) کا ظہور ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کے اتحاد سے سیاسی جماعت ایس پی ڈی وجود میں آئی، جو آج بھی جرمن سیاست کا لازمی جزو ہے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
سوشلسٹ بمقابلہ کمیونسٹ
جرمن سوشل ڈیموکریٹک جماعت دیگر یورپی ملکوں کے لیے ایک مثال بنی۔ اس جماعت کی مزدوروں کے حقوق کے لیے جنگ نظریاتی طور پر متاثرکن تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بہت سے یورپی ملکوں میں مزدور تحریک سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے مابین تقسیم ہوگئی۔ کیمونسٹ لینن (تصویر) نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی، جو تقریباﹰ 70 برس قائم رہا۔
تصویر: Getty Images
نازیوں کے ہاتھوں یونینز کی تحلیل
تقسیم کے باوجود 1920ء کی دہائی میں مزدور تحریک اپنے عروج پر تھی۔ یونینز کے پہلے کبھی بھی اتنے زیادہ رکن نہیں تھے۔ جرمنی میں نیشنل سوشلسٹوں کے اقتدار میں آنا ان کے لیے خاتمے کا سبب بنا۔ آزاد یونینز کو تحلیل کر دیا گیا۔ بہت سے یونینز عہدیداروں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور چند ایک کو پھانسی بھی دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈی ڈی آر میں بغاوت
دوسری عالمی جنگ کے بعد ڈی ڈی آر میں آزاد جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (FDGB) کی چھتری تلے اور اتحادیوں کے زیرنگرانی یونینز کو دوبارہ فعال ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ 17 جون 1953ء کو وہاں بغاوت کا سماں تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مزدور کارکنوں نے سیاسی قیادت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ سوویت فوجیوں نے فسادات کو کچل دیا۔ اس وقت FDGB حکومت کے ساتھ تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
مزدور تحریک بغیر مزدوروں کے
سن 1945ء کے بعد جمہوری ریاستوں میں مزدور تحریک کی اہمیت میں نمایاں کمی ہوئی۔ بہت ہی کم صنعتی کارکن یونینز کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ 1960ء اور 70ء کی دہائی میں خواتین اور ماحول سے متعلق نئی تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یونین کے صدر سے ملکی صدر
جو مزدور یونین ملکی سرحدوں سے بھی باہر نام بنانے میں کامیاب رہی وہ پولینڈ کی ’یکجہتی‘ نامی تنظیم تھی۔ اس کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی اور چند ماہ بعد ہی یہ ایک عوامی تحریک میں بدل گئی۔ دس برس بعد اس کا سیاست میں کردار انتہائی اہم تھا۔ اس کے پہلے چیئرمین لیک والیسا 1990ء میں پولینڈ کے صدر بنے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آج کی مزدور تحریک
آج بھی ٹریڈ یونینز اور بائیں بازو کی جماعتیں بہترکام اور اچھے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ، کم اجرتوں اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ آج یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع پر جرمن ٹریڈ یونین فیڈریشن (DGB) نے اپنا موٹو ’’بہتر کام، سوشل یورپ‘ رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images
9 تصاویر1 | 9
غلاموں جیسے حالات میں مشقت کرنے والے انسانوں کو رہائی دلوانے کے لیے کوشاں 'واک فری فاؤنڈیشن‘ کے مطابق یہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد برازیلین باشندے ایسے ہیں، جو نا تو اپنا استحصال کرنے والے عناصر کے چنگل سے فرار ہو سکتے ہیں اور نا ہی ان کے پاس دھمکیوں، تشدد، جبر، دھوکا دہی اور طاقت کے غلط استعمال کے خلاف اپنا دفاع کر سکنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے۔
ماڈالینا نے مدد کیوں نا طلب کی؟
اس سوال کے جواب میں اتنے برس گزر جانے کے باوجود ماڈالینا نے شروع میں ہی اپنے لیے کسی سے کوئی مدد کیوں طلب نا کی، اس 46 سالہ افریقی نژاد برازیلین خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے علم تھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے اور ناانصافی ہے۔ لیکن میں بہت خوف زدہ تھی۔ مجھے دھمکیاں دی جاتی تھیں اور مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔ اور پھر میرے جیسی کسی لڑکی کو یہ علم کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پولیس کے پاس جا کر اپنی کوئی شکایت کس طرح درج کروائے؟‘‘
ماڈالینا کو یہ بات کئی برس بعد پتا چلی کہ اسے پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر بظاہر گود لیا ہوا تھا اور حکام سے اس کی تعلیم اور اچھی زندگی کے وعدے بھی کیے گئے تھے۔ مگر وہ تو برس ہا برس تک کپڑے او برتن دھوتی رہی اور صفائیاں ہی کرتی رہی تھی۔ 2002ء میں جب وہ 26 سال کی تھی، تو پروفیسر ریگیرا کے خاندان نے کاغذ پر اس کی شادی ایک 78 سالہ شخص سے کر دی تھی۔
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔
تصویر: DW/J. Hahn
9 تصاویر1 | 9
دو سال بعد اس کا شوہر، جو پروفیسر ریگیرا کا رشتے دار ہی تھا، انتقال کر گیا، تو مرنے والے کی بیوہ کے طور پر اس کی پینشن ماڈالینا کو ملنے کے بجائے پروفیسر ریگیرا کے بینک اکاؤنٹ میں جاتی رہی۔ برازیل کے ایک اخبار کے مطابق ماڈالینا کے شوہر کی جو پینشن اس کی بیوہ کے طور پر ماڈالینا کو ملنا چاہیے تھی، اس سے پروفیسر ریگیرا نے اپنی ایک بیٹی کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات پورے کیے۔
ماڈالینا کی خواہش
لیبر انسپکٹر کاسماسمیے کے مطابق جب سے انہوں نے ماڈالینا گوردیانو کو رہائی دلوائی ہے، اس دن کے بعد سے وہ برازیل کے اسی صوبے میناس گیرائس میں مزید پانچ ایسی گھریلو ملازماؤں کو رہائی دلوا چکے ہیں، جو مختلف لوگوں کے گھروں میں غلاموں کے سے حالات میں مشقت کرنے پر مجبور تھیں۔
جہاں تک ماڈالینا کی اپنے مستقبل سے متعلق خواہش کا تعلق ہے، تو اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنی آئندہ زندگی پر توجہ دینا چاہتی ہوں۔ میں ان لوگوں سے دور رہنا چاہتی ہوں، جنہوں نے ماضی میں میرے ساتھ ظلم کیا۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنی تعلیم مکمل کروں اور کچھ سیر وسیاحت بھی۔ اور ہاں، رہنے کے لیے اگر اپنا کوئی گھر ہو، تو یہ تو بہت ہی اچھی بات ہو گی۔‘‘
اینس آئزیلے (م م / ع س)
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘