1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کھانا گھر‘ بھوک کا خاتمہ مگر عزت نفس کا نہیں

عنبرین فاطمہ، کراچی 22 جون 2015

’کھانا گھر‘ پروین سعید نامی خاتون کی جانب سے شروع کیا گیا ہے۔ پروین سعید پر ایک واقعہ ایسا اثر انداز ہوا کہ انہوں نے بھوک کے خاتمے کی جانب عملی قدم اٹھاتے ہوئے اس مرکز کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

Local Heroes Artikelmotiv URDU PNG
تصویر: DW

یہ سن 2002ء کی بات ہے جب ایک ماں نے اپنے دو معصوم بچوں کو محض اس لیے قتل کر دیا تھا کہ وہ انہیں بھوک سے بلکتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اخبار میں چھپنے والی اس خبر کو پڑھ کر افسوس تو شاید سبھی کو ہوا ہو گا، کچھ نے مہنگائی کا شکوہ کیا اورکچھ نے اسے حکومت کی نا اہلی قرار دیا مگر زیادہ تر لوگ اسے معمول کی خبر کے طور پر پڑھ کر نظر انداز کر گئے۔

اس دلدوز خبر اور بھوک کے باعث دو معصوم جانوں کے قتل نے تاہم پروین سعید کے دل و دماغ کوجھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے محض افسوس کرنے کی بجائے بھوک کے خلاف جنگ کرنے کی ٹھان لی۔ یہی عزم وجہ بنا ’کھانا گھر‘ قائم کرنے کی، جو اس وقت نہایت معمولی رقم کےعوض ہزاروں لوگوں کی بھوک مٹانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

پروین سعید کے مطابق وہ روزانہ دو سے تین گھنٹے خدا کی بستی میں قائم اس کھانا گھر میں وقت گزارتی ہیںتصویر: DW/U. Fatima

خدا کی بستی اور کھانا گھر

کراچی کے علاقے سُرجانی ٹاون سے کچھ فاصلے پر واقع خدا کی بستی نہایت غریب اور اقتصادی حوالے سے نادار لوگوں کا رہائشی علاقہ ہے۔ اسی خدا کی بستی میں ایک ڈھابے یا چھوٹے سے ہوٹل کے باہر دن کے بارہ بجے سے مرد و خواتین اور بچوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔ یہ لوگ انتہائی نظم وضبط کے ساتھ قطاریں بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ یہاں موجود مرد، خواتین اور بچوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا تعلق معاشرے کے اس طبقے سے ہے جو روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرتے ہیں تو گھر کا چولہا جلتا ہے اور اگر مزدوری نہ کریں تو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی۔

یہی وہ کھانا گھر ہے جسے پروین سعید گزشتہ 12 برس سے چلا رہی ہیں۔ اس کھانا گھر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں محض تین روپے کی معمولی سی رقم کے عوض کھانا ملتا ہے جس میں سالن اور روٹی دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اس قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام تنور سے اگر محض ایک روٹی بھی خریدی جائے تو اس کی سات سے آٹھ روپے ہوتی ہے۔

کھانا گھر کی ابتداء

نہایت دھیمے لہجے اور عاجزانہ انداز میں بات کرنے والی 54 سالہ پروین سعید کا ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تیرہ سال قبل ایک ماں کے ہاتھوں اپنے دو بچوں کے قتل کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو میں بھی اس عورت کو دیکھنے گئی، یہ سوچ کر کہ آخر اس نے کس طرح اپنے بچوں کو مار دیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے جواب دیا کہ جب تمھارے بچے بھوکے ہوں گے تب تم بھی اپنے بچوں کو ایسے ہی ختم کر دو گی۔ اس عورت کے اس جواب نے مجھے احساس دلایا کہ واقعی بھوک بہت خطرناک چیز ہے، جوماں کی محبت کو مار دیتی ہے، بچوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ جو خدا نے ہمیں دیا ہے اس میں سے اگر تھوڑا سا بھی حصہ ہم نکال سکیں تو کئی افراد کو بھوک سے بچا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ کھانا گھر وجود میں آیا۔‘‘

پروین سعید بتاتی ہیں کہ ابتداء میں جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو لوگوں نے حسب روایت کئی باتیں بنائیں اور اعتراضات کیے تاہم بھوک کے خلاف کوشش کرنے کے اس جذبے کے سامنے انہوں نے کسی کو نہیں آنے دیاتصویر: DW/U. Fatima

پروین سعید بتاتی ہیں کہ ابتداء میں جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو لوگوں نے حسب روایت کئی باتیں بنائیں اور اعتراضات کیے تاہم بھوک کے خلاف کوشش کرنے کے اس جذبے کے سامنے انہوں نے کسی کو نہیں آنے دیا اور آج تیرہ سال سے وہ اس کام کو بخوبی انجام دے رہی ہیں، جس میں وقت کے ساتھ وسعت آئی ہے، ’’خدا کی بستی کے علاوہ کورنگی نمبر ڈیڑھ میں بھی ایک کھانا گھر کھولا گیا ہے جہاں صرف دن میں کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے مختلف حصوں میں پک اپ پوائنٹس بھی ہیں۔ ان پک اپ پوائنٹس کے ذریعے کسی بھی علاقے میں جہاں سے لوگ گھانا گھر نہیں پہنچ سکتے، ان کے لیے کھانا پیک کر کے بھیجا جاتا تھا۔ ابتدا میں یہ دس پک اپ پوائنٹس تھے، جو بستیوں اور گوٹھ میں جایا کرتے تھے تاہم اب حالات کے باعث ہمیں ان پوائنٹس کی تعداد کم کر کے پانچ کرنا پڑی ہے۔‘‘

صرف تین روپے بھی کیوں؟

کھانا گھر میں جوکھانا محض تین روپے کے عوض فراہم کیا جاتا ہے کسی بھی دوسری جگہ پر اس کی قیمت کسی بھی طرح سے چالیس، پچاس روپے سے کم نہیں ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پروین سعید نے نادار لوگوں کی مدد ہی کرنا تھی تو پھر مفت کھانا فراہم کرنے کی بجائے یہ تین روپے کیوں وصول کیے جاتے ہیں۔ پروین سعید کے پاس اس کی بڑی ہی خوبصورت وجہ ہے، ’’یہاں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو لوگوں کو بالکل مفت کھانا فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب کھانا گھر شروع کیا گیا تو قیمت مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگ محنت کریں اور ان کی عزت نفس اس وجہ سے مجروح نہ ہو کہ وہ خیرات میں مِلا ہوا کھانا کھا رہے ہیں۔ پھر مفت میں کھانے والوں کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ ان کو اور ان کے بچوں کو دو وقت کا کھانا مفت میں مل تو جاتا ہے تو پھر محنت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن جب یہاں آئے گا تو وہ خریدا کر کھا رہا ہو گا اور اس کے لیے اس نے محنت کی ہو گی۔ اس کی عزت نفس مجروع نہیں ہوگی کہ اس نے مفت میں کچھ لیا ہے۔‘‘

اپنے حصے کی شمع

پروین کے بقول ملک بھر میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ اس اعتبار سے اُن کی یہ کوشش بہت ہی محدود اور چھوٹی ہے لیکن پھر بھی اس طرح اگر چند ہزار افراد اور ننھے بچے ہی اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں یا ان غریب اور بوڑھے لوگوں کو عزت کے ساتھ دو وقت کا کھانا مل جاتا ہے جو بے گھر ہیں یا جن کی اولادیں انہیں بے سہارا چھوڑ گئیں ہیں، تو کم از کم انہیں یہ تسلی تو ہے کہ وہ دنیا کے دکھوں میں کسی حد تک کمی کا باعث بن رہی ہیں۔

پروین سعید کے مطابق وہ روزانہ دو سے تین گھنٹے خدا کی بستی میں قائم اس کھانا گھر میں وقت گزارتی ہیں اور معاملات دیکھتی ہیں۔ جبکہ دونوں ’کھانا گھر‘ کا بارہ افراد پر مشتمل عملہ کھانا پکانے اور کھلانے کا کام انجام دیتا ہے۔

خدا کی بستی میں اس چھوٹے سے ہوٹل کے باہر دن کے بارہ بجے سے مرد و خواتین اور بچوں کا ہجوم نظر آتا ہےتصویر: DW/U. Fatima

کھانا گھر کے بعد ’دوا گھر

پروین سعید کا تعلق سُرجانی ٹاؤن سے ہی ہے۔ وہ اسی علاقے میں پلی بڑھیں، یہیں شادی ہوئی اور یہیں ان کی دونوں بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں۔ تاہم 28 برس قبل وہ اپنے خاندان کے ساتھ خدا کی بستی منتقل ہو گئیں۔ بھوک کے خلاف کام کرنے والی پروین سعید صرف کھانا گھر ہی نہیں چلاتیں بلکہ اپنے شوہر کے ساتھ ’’دوا گھر‘‘ نام کا ایک اور ادارہ بھی چلا رہی ہیں جو علاج کے لیے دوائیں خریدنے کی سکت نہ رکھنے والے افراد کو دوا فراہم کرتا ہے۔

لوگ آتے گئے کاررواں بنتا گیا

کھانا گھر کو ابتدا میں پروین سعید نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جب لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہوا تو کئی افراد نے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا اور ایک اندازے کے مطابق آج یہ کھانا گھر تین ہزار افراد کی بھوک مٹانے کا ذریعہ ہے۔ تاہم پروین کے مطابق مہنگائی کے اس دور میں لوگوں کی جانب سے اب اتنی مدد نہیں مل پا رہی جتنا پہلے ملتی تھی۔

مجسم انکساری، پروین سعید کا اپنے اس رفاحی کام کے حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ کوئی بڑا کام انجام دے رہی ہیں، ’’میں اپنا فرض نبھا رہی ہوں۔ انسان صرف محنت کرتا ہے، کامیابی اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ میں نے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری لے رکھی ہے۔ پہلے پہل میرا بھی ارادہ تھا کہ صحافت کے شعبے میں کوئی کام کروں لیکن اللہ نے میرے لیے کھانا گھر جیسا کام رکھا تھا جو لوگوں کی بھوک مٹانے کے کام آرہا ہے اور جس پر میں خدا کی بہت شکر گزار ہوں ۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں