قومی مہم کے تناظر میں ایک ریسٹورنٹ نے اپنے گاہکوں کے لیے قدرے حیران کن اور متنازعہ پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے تحت ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والے ہر کسٹمر کو اپنا وزن کرانا ہوتا ہے۔
اشتہار
چین کی حکومت نے خوراک کو ضائع کرنے کے خلاف ایک قومی مہم شروع کر رکھی ہے اور اس میں خاص طور پر ملکی ہوٹلوں اور ریستورانوں کو بھی متحرک کیا ہے۔ خوراک کے ضیاع کو روکنے کے حوالے سے مختلف ہوٹلز اور ریسٹورنٹس نے مختلف پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔
اس قومی مہم کے تناظر میں ایک ریسٹورنٹ نے اپنے گاہکوں کے لیے قدرے حیران کن اور متنازعہ پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے تحت ریسٹورنٹ میں داخل ہونے والے ہر کسٹمر کو اپنا وزن کرانا ہوتا ہے۔ اس پالیسی کے خلاف کسٹمرز نے خاصی خفگی کا اظہار کیا ہے۔ اس ناراضی پر ریسٹورانٹ کی انتظامیہ نے معذرت پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس ایپ کی تنصیب کا اولین مقصد خوراک کے ضیاع کو محدود کرنا ہے۔ اس وضاحت کے باوجود صارفین کا غصہ کم نہیں ہوا ہے۔
یہ ریسٹورنٹ چین کے وسطی شہر چانگشا میں واقع ہے۔ اس کی وجہ مقبولیت گوشت کی ڈشز ہیں۔ ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے وقت کسٹمرز کو ایک خاص مشین کے سامنے کھڑا ہونا ہوتا ہے جو ان کا وزن کرنے کے بعد انہیں گوشت کی مختلف ڈشز تجویز کرتی ہے۔ ایک کمپیوٹر ایپ کی یہ تجاویز صارف کے وزن اور درکار کیلوریز کے مطابق ہوتی ہیں۔ چانگشا کے اس مقبول ریسٹورنٹ نے اپنی یہ 'باڈی فرینڈلی‘ مگر متنازعہ پالیسی ابھی جمعہ 14 اگست کو ہی متعارف کرائی ہے۔
چانگشا شہر کے اس ریسٹورنٹ کو سوشل میڈیا پر اپنی متنازعہ پالیسی کی وجہ سے صارفین کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معذرت کے باوجود صارفین کا غصہ ابھی ٹھنڈا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تقریباً تین سو ملین افراد نے ریسٹورنٹ کی پالیسی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
مستقبل میں انسانی خوراک کیسی ہوگی؟
انسانی خوراک پر عالمی چیلنجز کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ جرمنی میں حفظانِ صحت کے میوزیم میں ’فیوچر فوڈ: ہم مستقبل میں کیا کھائیں گے؟‘ کےعنوان سے جاری نمائش میں خوراک کے ماضی اور مستقبل کے منفرد پہلو پیش کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: IzumiMiyazaki
آزادی کے لیے شکر کا بائیکاٹ
شکر کا بائیکاٹ، جو سن 1791 میں شروع کیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ صارفین کی جانب سے یہ تاریخ کا پہلا بائیکاٹ تھا۔ اس وقت شکر انگریزوں کے غلاموں کی تجارت کی ایک علامت بن چکی تھی۔ اس تصویر میں، کارٹونسٹ آئزک کروکشانک نے اس وقت کے اُن رئیسوں کا مذاق اڑایا تھا، جو خود کو فریڈم فائٹر کہتے تھے لیکن ان کی میٹھی چائے کسی کے لیے ماتم کا سبب تھی۔
تصویر: The Trustees of the British Museum
ایک غیر صحت بخش رجحان: 1902ء کے کوکوائیوورس
سن 1902 میں سبزی خور اگست اینگل ہارٹ نے جرمن نوآبادیاتی سلطنت کے ایک حصے جرمن نیو گنی میں ناریل کے پودے لگائے۔ چونکہ ناریل کا درخت اونچا اور سورج کی طرف بڑھتا ہے، لہٰذا اسے یقین تھا کہ یہ بہت مفید ہے۔ اینگل ہارٹ نے سورج کے پرستاروں کے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھی جو کوکوائیوورس تھے، وہ صرف ناریل پر مشتمل خوراک کا استعمال کرتے تھے۔ اس کے بہت سے پیروکار جلد ہی فوت ہوگئے۔
تصویر: Archiv Dieter Klein
سویا سوسیج کس نے ایجاد کیا؟
زیادہ سے زیادہ لوگ سبزی خور بن رہے ہیں، لہذا کھانے کی صنعت گوشت کے مختلف متبادل تیار کر رہی ہے۔ لیکن یہ کوئی نیا رجحان نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، اس وقت کے ڈائریکٹر فوڈ سپلائی اور بعد میں پہلے جرمن چانسلر کونراڈ آڈیناؤر نے لوگوں کو پروٹین سے بھرپور کھانا فراہم کرنے کے لیے سویا سوسیج ایجاد کیا تھا۔
تصویر: Archiv der Stiftung Bundeskanzler-Adenauer-Haus
دور اندیش منصوبہ بندی: ٹاور گرین ہاؤس
آسٹریا کے ایک انجینئر اوتھمار روتھنر نے سن 1964 میں ویانا انٹرنیشنل گارڈن شو کے دوران اپنا ’ٹاور گرین ہاؤس‘ پیش کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اکتالیس میٹر اونچے گلاس ٹاور میں پھول اور سبزیاں کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں آبپاشی کا نظام اور کھاد مکمل طور پر خودکار تھے۔ دور حاضر میں روتھنر کی اس تکنیک کو ’عمودی کاشت کاری‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: Gartenbauschule Langenlois
مرغی کے سستے گوشت کی درآمد کی مخالفت
جب سے یورپ اور امریکا نے سستے داموں پر افریقی ممالک میں گوشت برآمد کرنا شروع کیا ہے تب سے گھانا کے مقامی پولٹری فارم معاشی تنگی کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ افریقہ کے مقامی پولٹری فارمز مارکیٹ میں صرف پانچ فیصد گوشت فروخت کر پاتے ہیں۔ لہٰذا یہ مہم لوگوں کو مقامی سطح پر تیار کردہ چکن استعمال کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔
تصویر: Eat Ghana chicken
دنیا کا سب سے شفاف چکن
بڑے پیمانے پر گوشت کی پیداوار کی بجائے زیادہ سے زیادہ صارفین اب نامیاتی خوراک کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ تاہم، جانوروں کے بارے میں معلومات عام طور پر کھانے کے ڈبوں پر دستیاب نہیں ہوتی۔ ’بلاک برڈ‘ نامی کمپنی ذبح کی گئی مرغی کے بارے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے ذریعے ریکارڈ کی گئی تمام تر تفصیلات جاری کرتی ہے۔
تصویر: The Future Market
پانی پر ایک گائے کا فارم
شہری علاقوں میں کھیت کھلیان اور مویشی محدود تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ہالینڈ میں اس کا ایک متبادل تیار کیا گیا: مندرجہ بالا تصویر روٹرڈام کی بندرگاہ میں تیرتے ڈیری فارم کی ہے۔ پانی پر قائم یہ ڈیری فارم نہ صرف زمین بچاتا ہے بلکہ گائے کے دودھ کی نقل و حمل کو بھی قدراﹰ آسان بناتا ہے۔
تصویر: Floating Farm
چھ ٹانگوں والی خوراک
یورپی یونین میں سن 2018 سے کچھ کیڑوں کو خوراک میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر، پروٹین سے بھرپور رات کے جھینگر خشک، نمکین یا پاؤڈر کی صورت میں بڑے پیمانے پر کھانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Lothar Sprenger
دلکش اور لذیذ ناشتہ
فوٹوگرافر مائیکل زی سن 2013 سے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنے اور اپنے ساتھی کے لیے تیار کردہ ناشتے کی تصویر شائع کر رہے ہیں۔ ہر بار، وہ ترتیب و متوازن انداز میں کھانا پیش کرتے ہیں۔ اس طرح زی، روزمرہ کی زندگی میں رشتوں کی دیکھ بھال میں چھپی خوبصورتی اور کھانے کی متنوع ثقافت کا جشن مناتے ہیں۔
تصویر: Michael Zee
ایسے برتن جو کھانے کا مزہ دوبالا کردیں
جنوبی کوریا کے ڈیزائنر جنہیان جیون کھانا چکھنے کے احساس کو بڑھانے کے لیے منفرد چمچ تخلیق کرتے ہیں۔ ذائقہ چکھنے کے تجربے کو خاص بنانے کے لیے وہ چمچوں کو مختلف درجہ حرارت، رنگ، ڈیزائن، سائز اور انداز بخشتے ہیں۔
تصویر: Jinhyun Jeon
کھانا ایک لائف اسٹائل
لذیذ طعام سے سجی کھانے کی میز پر بیٹھ کر مختلف پکوان کے ذائقے سے لطف اندوز ہونا، کیا مستقبل میں یہ ممکن ہوگا؟ ڈریسڈن میں واقع جرمن حفظان صحت میوزیم میں اس سوال سے متعلق ایک منفرد نمائش جاری ہے۔ یہ نمائش اکیس فروری 2021ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: Oliver Killig
11 تصاویر1 | 11
دوسری جانب چینی صدر شی جن پنگ نے اسی ہفتے کے دوران اپنی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خوراک ضائع کرنے سے اجتناب کریں۔ ملک گیر مہم کا نام 'آپریشن خالی پلیٹس‘ تجویز کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ چینی صدر کی یہ اپیل کورونا وائرس کی وبا اور شدید سیلاب سے پیدا ہونے والی اقتصادی گراوٹ کے نتیجے میں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں خوراک کی بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں ہے۔
ملکی صدر کی اپیل کی حمایت میں مختلف چینی علاقوں میں خوراک فراہم کرنے والی کمپنیوں نے عوام کو تلقین کی ہے کہ کھانا کھانے کے لیے آرڈرز اعتدال سے تجویز کریں اور میز پر بیٹھے مجموعی افراد سے ایک ڈش کم منگوائیں۔ اس مشورے یا ہدایت کے حوالے سے سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گروپ کی شکل میں کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے اور ایک ڈش کم منگانے سے پیسے کی بچت اور خوراک کا ضیاع نہیں ہو گا۔
جرمن گرمیوں میں کیا کھاتے ہیں؟
جرمن شہری ہر وقت سوسیج، زاؤرکراؤٹ اور آلو ہی نہیں کھاتے۔ یہاں آئیے ذرا جھانک کے دیکھیں مختلف دسترخوانوں میں، جو گرمی کے موسم میں اِدھر اُدھر دکھائی دے رہے ہیں۔ویسے پھر بھی آلو اور سوسیج کی توقع ضرور رکھیے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
گرمی، بار بی کیو کا موسم
دیگر بہت سے ممالک کی طرح جرمن شہری بھی بار بی کیو کے مزے لیتے ہیں۔ ظاہر ہے، سوسیج کو تو گرل کیا ہی جا سکتا ہے گوشت کی طرح، مگر سبزیاں اور ترک پنیر گرل پر اپنی خوشبو اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے جرمنوں کے پسندیدہ اب بھی روایتی کوئلے والے گرل ہیں۔ شہریوں میں کئی پبلک پارکس میں بھی لوگ بار بی کیو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Y. Arcus
تھوڑا سا ’کراؤٹ سالاد‘ ڈالیے نا
عالمی جنگوں کے دوران جرمنوں کو تضحیک سے پکارنے کے لیے ’کراؤٹ‘ پکارا جاتا تھا۔ جرمن لفظ ’کراؤٹ‘ کا مطلب ویسے تو جڑی بوٹی ہے، مگر جرمنی میں اسے کیبیج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے جرمن ڈش ’’زاور کراؤٹ‘‘، جس میں کیبیج کو باریک کاٹا جاتا ہے۔ جرمنی میں اسے مایونیز کی بجائے سرکے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ بعض افراد یہاں اس پر سیب اور پیاز بھی کاٹ کر ڈال لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
آلو کا سالاد
اگر آلو کے لیے جرمن لفظ ’کرٹوفل‘ بولنے میں آسان ہوتا، تو یقین مانیے ماضی میں جرمن فوجیوں کو شاید اس نام سے پکارا جاتا۔ اس لیے کہ جرمنی میں آلو بے حد استعمال کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جرمنی میں جتنے خاندان بستے ہیں شاید اتنی ہی ’آلو کے سالاد بنانے کی ترکیبیں‘ بھی ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ اپنی والدہ کی بتائی ہوئی ترکیب پر پوری زندگی عمل پیرا رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Goldmann
آلو کی ایک اور ڈش، ’’پیل کرٹوفل مِٹ کوارک‘
موسم گرما میں، کھانا پکانے کا جی کب چاہتا ہے۔ اسی لیے جرمن اس کا علاج بھی آلو ہی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ وقت اور توانائی بچانے کے لیے ’پیل کروٹوفِلن‘ ڈش سے بہتر کیا ہو گا۔ اس میں آلوؤں کو چھلکوں سمیت ابال لیا جاتا ہے اور ان کی جلد کھاتے وقت اتاری جاتی ہے۔ اسے کھایا جاتا ہے، دہی کی طرح کے ڈیری پروڈکٹ ’کوارک‘ کے ساتھ۔ ساتھ ہی کالی مرچ اور کچھ دیگر لوازمات بھی رکھ لیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago
ارے سالاد صرف خرگوش تھوڑی کھاتے ہیں
صرف سبزی کھانے والے اب ذرا اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جرمنوں نے تو سالاد میں بھی گوشت شامل کر لیا۔ یہ ’فلائش سالاد‘ روٹی پر پھیلا کر کھایا جاتا ہے۔ بس آپ بالکونی میں بیٹھے ہوں گے، مایونیز یا ساؤر کریم، یا اچار، کٹا ہوا پیاز اور دیگر مسالے پاس ہوں گے اور یہ گوشت والا سالاد آپ کو لطف دے گا۔
تصویر: imago
ایک اور چیلنج، ’’ایپفل ماتیس سالاد‘
’ماتیس‘ مچھلی کے کتلے اچار والی بوتل میں بیچے جاتے ہیں۔ سب کو یہ مچھلی اس طرح پسند نہیں ہوتی، مگر شمالی جرمن ساحلی علاقے میں یہ ایک روایتی سی خوراک ہے۔ یعنی اس مچھلی کے کتلے کاٹ کر اسے ’اچار‘ بنا دیا جاتا ہے۔ اسے کٹے ہوئے پیاز اور کریمی ڈیری پروڈکٹ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ گرمیوں میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، آلو تو ساتھ ضروری ہیں۔
تصویر: imago
مزے مزے کی جڑی بوٹیاں، ’فرانکفرٹر گروئن سوزے‘
اب آپ موسم گرما کا رجحان تو سمجھ گئے ہوں گے۔ یعنی آلوؤں کے ساتھ مختلف طرح کے سوس۔ یہ سبز سوس فریکفرٹ کے علاقے میں مشہور ہے اور گرمیوں میں دستیاب ہوتا ہے۔ اس سوس کا اپنا فیسٹیول اور باقاعدہ موسم ہوتا ہے، یعنی ہر برس ایسٹر سے قبل جمعرات کے روز سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔
تصویر: imago
پھل اور سبزیاں ملا دیں
شمالی جرمنی میں ایک موسم گرما میں قریب ہر گھر کی شاپنگ لسٹ میں تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں، ناشپاتی، پھلیاں اور گوشت۔ یہی تین اجزا ملا کر بنایا جاتا ہے، ایک زبردست اور صحت مند سمر سٹیو۔ جرمنی میں جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں ناشپاتی ویسے آپ کو ہر طرف بکتی نظر آتی ہے۔
تصویر: Colourbox
کھلی فضا میں آ جائیے
جرمنی میں موسم گرما آتا ہے، تو لوگ زیادہ وقت دھوپ میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں، گھروں کے باغیچے ہوں یا پبلک پارکس، دھوپ سینکنے لوگ ہر طرف ملتے ہیں اور ایسے میں ہر جگہ بار بی کیو کرتے لوگ موسم گرما کو کسی جشن کا روپ دیتے نظر آتے ہیں۔