رینالٹ نسان کے سابق سربراہ کارلوس گوسن جاپان سے فرار ہو گئے
31 دسمبر 2019
کار ساز ادارے رینالٹ نسان کے سابق سربراہ کارلوس گوسن جاپان سے فرار ہو کر لبنان پہنچ گئے ہیں۔ انہیں جاپان میں اپنے خلاف بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ بظاہر جاپانی عدلیہ کی مرضی کے برعکس اس ملک سے رخصت ہوئے۔
اشتہار
برازیل میں پیدا ہونے والے کارلوس گوسن کے پاس برازیل کے علاوہ لبنان اور فرانس کی شہریت بھی ہے اور انہوں نے اپنی جاپان سے رخصتی کی تصدیق خود پیر تیس دسمبر کو کی۔ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کرنے والے کار ساز ادارے رینالٹ نسان کے اس سابق سربراہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''میں اب ساز باز سے متاثر اس جاپانی عدلیہ کا یرغمالی نہیں ہوں، جہاں کسی کے قصور وار ہونے سے متعلق صرف اندازے ہی لگائے جاتے ہیں، امتیازی رویہ انتہائی حد تک دیکھنے میں آتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔‘‘
ساتھ ہی اس وقت 65 سالہ کارلوس گوسن نے یہ بھی کہا، ''میں نے انصاف سے فرار کی راہ اختیار نہیں کی بلکہ میں ناانصافی اور سیاسی تعاقب کے چنگل سے بچ کر نکلا ہوں۔ اب میں آزادانہ طور پر میڈیا سے بات کر سکتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں اگلے ہفتے سے ایسا کر سکوں گا۔‘‘
گوسن کے سارے پاسپورٹ ان کے وکلاء کے پاس
لبنانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کارلوس گوسن اتوار 29 دسمبر کی شام ایک نجی ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہوئے لبنانی دارالحکومت بیروت کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ گوسن کے 'خاندان کی جڑیں‘ لبنان سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔ اسی دوران جاپان میں کارلوس گوسن کے مرکزی وکیل جونی چیرو ہیروناکا نے گوسن کی جاپان سے رخصتی کی خبر پر شدید حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ خبر سن کر دم بخود رہ گئے کیونکہ کارلوس گوسن کے پاسپورٹ تو ابھی تک ان کے وکلاء کی ٹیم ہی کے پاس ہیں۔ ہیروناکا نے مزید کہا کہ ان کا گوسن سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اب آئندہ کیا ہو گا۔
ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی
کارلوس گوسن پر الزام ہے کہ وہ کار سازی کے شعبے میں ایک ایسے بین الاقوامی گٹھ جوڑ کے مرکزی کردار تھے، جس میں رینالٹ نسان کے علاوہ مٹسوبیشی نامی کمپنی بھی شامل تھی۔
انہیں نومبر 2018ء میں ٹوکیو میں سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد ان پر باقاعدہ فرد جرم بھی عائد کر دی گئی تھی۔
ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے ذاتی سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے نجی نقصانات بھی نسان کمپنی کے کھاتے میں ڈال دیے تھے۔ گوسن کو اسی سال اپریل میں تفتیشی حراست سے بہت سخت شرائط کے تحت ضمانت پر رہا کیا گیا تھا تاکہ وہ جاپان سے فرار نہ ہو سکیں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کے شہادتی مواد میں کوئی رد و بدل نہ کر سکیں۔
برطانوی کار ساز صنعت بتدریج فروخت ہوتی ہوئی
سن 1958 میں برطانیہ کا نمبر کار صنعت میں دوسرا تھا۔ امریکا کار سازی میں پہلے مقام پر تھا۔ سن 2008 میں برطانیہ کی پوزیشن دوسری سے بارہویں پر آ گئی ہے۔ بے شمار برطانوی کار ساز ادارے فروخت کیے جا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
آسٹن مارٹن: جیمز بانڈ کی گاڑی بھی فروخت ہونے لگی
یہ لگژری اسپورٹس کار سن 1913 سے برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پسند کی جاتی تھی۔ سن 1964 کی بانڈ سیریز کی فلم ’گولڈ فنگر‘ میں اس کا پہلی باراستعمال کیا گیا۔ اس فلم میں جیمزبانڈ کا کردار شین کونری نے ادا کیا تھا۔ اس کار کو چھ مختلف بانڈ فلموں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ رواں برس اس کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اماکاناً اس کو 4.3 بلین یورو کے لگ بھگ خریدا جا سکے گا۔
تصویر: Imago/Cinema Publishers Collection
جیگوار: اب بھی سڑکوں پر موجود ہے
مہنگی لگژری کاروں میں شمار کی جانے والی یہ کار جیگوار لینڈ روور کا برانڈ ہے۔ جیگوار لینڈ روور ایک کثیر الملکی کار ساز ادارہ ہے۔ اب اس کی مالک ایک بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز ہے، جس نے اسے سن 2008 میں خریدا۔ اس کار ساز ادارے کی بنیاد سن 1922 میں رکھی گئی تھی۔ اس ادارے کو برطانوی وزیراعظم کے لیے موٹر کار تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اسے ملکہ برطانیہ کی پسندیدگی کی سند بھی حاصل رہی ہے۔
تصویر: Imago/Sebastian Geisler
ٹرائمف: ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ٹرائمف اسپورٹس کار خاص طور پر امریکی شائقین کے مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی تھی۔ یہ کار سن 1968 سے 1976 کے دوران باقاعدگی سے امریکی مارکیٹ کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس دوران تقریباً ایک لاکھ موٹر کاریں برآمد کی گئیں۔ اس کار کے ساتھ اِس کے دلدادہ خاص لگاؤ رکھتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
رولز رائس: دنیا کی بہترین کار
سن 1987 کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا بھر میں کوکا کولا کے بعد رولز رائس سب سے مقبول برانڈ ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس کار ساز ادارے نے ہوائی جہازوں کے انجن بھی بنانے شروع کر دیے۔ عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی مشکلات کے تناظر میں لندن حکومت نے اس قومیا لیا اور پھر سن 1987 میں فروخت کیا تو جرمن ادارے بی ایم ڈبلیو نے خرید لیا۔ رولز رائس کی فینٹم کار کی قیمت چار لاکھ یورو سے شروع ہوتی ہے۔
تصویر: DW
مورس مائنر: ایک انگش کار
مورس مائنر کار کی پروڈکشن سن 1948 میں شروع کی گئی۔ سن 1972 تک یہ کار سولہ لاکھ کی تعداد میں تیار کر کے مارکیٹ میں لائی گئی۔ یہ واحد انگلش کار ہے، جو دس لاکھ سے زائد فروخت ہوئی۔ بعض افراد اس کے ڈیزائن کو خالصتاً انگریز مزاج کے قریب خیال کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
لوٹس: ایک جاندار حسن کا امتزاج
لوٹس کار ساز ادارہ اسپورٹس کاروں کے مختلف برانڈ تیار کرتا ہے۔ اس کا پروڈکشن ہاؤس دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والے ہوائی اڈے پر تعمیر کیا گیا۔ سن 2007 میں چینی کار ساز ادارے گیلی نے لوٹس کار کے اکاون فیصد حصص خرید لیے اور بقیہ کی ملکی ایٹیکا آٹو موٹو کے پاس ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J.-F. Monier
رینج روور: جدید دور کا اہم نام
لینڈ روور کار ساز ادارے کی یہ پروڈکشن عالمی شہرت کی حامل ہے۔ اس کو پہلی مرتبہ سن 1970 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس وقت اس کا چوتھا ماڈل مارکیٹ میں ہے۔ اس کے نئے ماڈل کی امریکا میں قیمت تقریباً دو لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ یہ کار خاص طور پر جدید ویل ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مورگن: انتظار کریں اور شاہکار آپ کے ہاتھ میں
مورگن موٹر کمپنی کا قیام سن 1910 میں ہوا تھا۔ مورگن پروڈکشن ہاؤس وُرسٹرشائر میں واقع ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد صرف 177 ہے۔ یہ ایک برس میں صرف 1300 گاڑیاں تیار کرتا ہے۔ اس گاڑی کی پروڈکشن انسانی ہاتھ کا شاہکار ہے۔ ایک نئی مورگن کار خریدنے کے لیے کم از کم چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ انتظار کا یہ سلسلہ گزشتہ دس برس سے دیکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/HIP/National Motor Museum
لینڈ روور: شاہی خاندان کی سواری
چار پہیوں کو بھی استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھنے والی یہ خاص موٹر کار برطانوی ملٹی نیشنل ادارے جیگوار لینڈ روور کی تخلیق ہے۔ اس کار ساز ادارے کی ملکیت سن 2008 سے اب بھارتی کمپنی ٹاٹا موٹرز کے پاس ہے۔ اس برطانوی شاندار گاڑی کو سن 1951 میں بادشاہ جورج نے پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
تصویر: Imago/CTK Photo
لنڈن کیب: ایک اور شاندار تسلسل
لندن کیب برطانوی دارالحکومت کے قریب واقع ایک گاؤں ہیکنی میں تیار کی جاتی ہے۔ اس گاؤں نے سن 1621 میں پہلی گھوڑوں سے کھینچی جانے والی ٹیکسی کوچ سروس متعارف کرائی تھی۔ امریکی شہر نیویارک میں ٹیکسی کے لیے ’ہیک‘ کا لفظ بھی اس گاؤں سے مستعار لیا گیا۔ لندن کی ٹیکسی سروس اسی قدیمی ہارس کوچ سروس کا تسلسل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایم جی بی، ایک پسندیدہ اسپورٹس کار
ایم جی بی کار دو دروازوں والی اسپورٹس موٹر کار ہے۔ اس کو سن 1962 میں پہلی مرتبہ تیار کیا گیا۔ اس کار کی پروڈکشن برٹش موٹر کارپوریشن (BMC) نے شروع کی اور یہی کار ساز ادارہ بعد میں برٹش لی لینڈ کہلاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مِنی: چھوٹی کار بھی عمدہ ہو سکتی ہے
سن 1999 میں مِنی نام کی کار کو بیسویں صدی کی دوسری بہترین کار قرار دیا گیا تھا۔ اس کو سن 1960 میں متعارف کرایا گیا جب بڑی برطانوی موٹر کاروں کا دور دورہ تھا۔ جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو نے اس کار ساز ادارے کو سن 1994 میں خریدا اور پھر سن 2000 میں اِس کے بیشتر حصص فروخت کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
آسٹن: نظرانداز کی جانے والی اہم کار
اس نام کی موٹر کار سن 1987 تک تیار کی جاتی رہی ہے۔ اس کو بنانے والا ادارہ دیوالیہ ہو گیا تھا۔ اس کا ٹریڈ مارک اب چینی کار ساز کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (SAIC) کی ملکیت ہے۔ ابھی اس نام کی موٹر کار مارکیٹ میں کم دستیاب ہے۔
تصویر: dapd
بینٹلے: ویلز پر ایک شاہکار
بینٹلے اس وقت دنیا کے سب سے بڑے کار ساز ادارے فولکس ویگن کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اس کار ساز ادارے کے قیام کو ایک سو برس ہونے والے ہیں۔ اس کے بیشتر پرزے اور اجزا برطانیہ میں تیار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فولکس ویگن کی ڈریسڈن میں واقع فیکٹری میں بنتے ہیں۔ یہ انتہائی شاہکار موٹر کار تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کی اشرافیہ اس کو اپنے گیراج میں رکھنا فخر سمجھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W.Hong
14 تصاویر1 | 14
جاپانی عدلیہ کا موقف
ٹوکیو میں جاپانی وزارت انصاف کے حکام کے مطابق جاپان اور لبنان کے درمیان مجرموں کی ملک بدری کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اسی لیے یہ بات امکانی نہیں ہے کہ لبنان پر دباؤ ڈال کر بیروت حکومت کو گوسن کو واپس جاپان کے حوالے کرنے اور گوسن کو جاپانی عدلیہ کے سامنے جواب دہ ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔
کارلوس گوسن کے خلاف جاپان میں مقدمے کی کارروائی متوقع طور پر اگلے برس کے اوائل میں شروع ہونا تھی۔ گوسن کو ان کی گرفتاری کے محض چند ہی روز بعد پہلے نسان اور پھر مٹسوبیشی کمپنی کے انتظامی سربراہ کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
کارلوس گوسن، جو اپنے خلاف جملہ الزامات سے انکار کرتے ہیں، اس سال جنوری میں رینالٹ گروپ کے سربراہ کے عہدے سے بھی مستعفی ہو گئے تھے۔
م م / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمن کار سازی کی صنعت
جرمنی کو عالمی سطح پر بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس ملک کی کاروں کو اقوام عالم میں پسند کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا پائیدار انجن خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Gou Yige/AFP/Getty Images
جرمن کاروں کی مقبولیت
جرمنی کی کارساز صنعت کے مختلف برانڈز ہیں، جنہیں مختلف ممالک کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ان میں مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، پورشے، آؤڈی، فولکس ویگن خاص طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
نوجوان نسل آؤڈی کو زیادہ پسند کرتی ہے
کسی دور میں جرمن عوام میں مرسیڈیز گاڑی کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، ایسا آج بھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں نوجوان نسل کو آؤڈی گاڑی نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے۔
تصویر: J. Eisele/AFP/Getty Images
پورشے
جرمن ساختہ پورشے کو لگژری کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل دنیا بھر کی اشرفیہ میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ڈیزل گیٹ اسکینڈل
تقریباً دو برس قبل فوکس ویگن کاروں سے دھوئیں کے اخراج کا اسکینڈل سامنے آیا۔ یہ اسکینڈل عالمی سطح پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران اس کی لپیٹ میں کئی کار ساز ادارے آ چکے ہیں۔
سن 2016 اور سن 2017 میں کاروں کی عالمی امپورٹ میں جرمنی کا حصہ بائیس فیصد تھا۔ یہ کاریں بنانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Simon
مرسیڈیز: جرمنی کی پہچان
جرمنی سمیت دنیا بھر میں مرسیڈیز گاڑی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مرسیڈیز موٹر کار کو جرمنی کی ایک پہچان بھی سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Wang Zhao/AFP/Getty Images
چینی باشندے جرمن گاڑیوں کے دیوانے
جرمن کار صنعت کے لیے چین بھی اب بہت اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ چین میں تیس فیصد کاریں جرمنی سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ چینی خریداروں میں کم اخراج کی حامل گاڑیوں کو بہت زیادہ پسند کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance
ماحول دوست کاری سازی
جرمنی میں بتدریج ماحول دوست کاروں کو پسندیدگی حاصل ہو رہی ہے۔ جرمن ادارہ ڈوئچے پوسٹ نے ترسیل کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔