کھیتوں میں شمسی توانائی کے پینلز لگا کر فصل ببڑھائی جا سکتی ہے اور ماحولیاتی تحفظ کی راہ بھی ہم وار کی جا سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ آئیےایگروولٹیکس کے فارم چلیے۔
اشتہار
فابیان کراٹہاؤس شمسی توانائی کے ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد نے پہلی بار فوٹو وولٹیکس نظام نصب کیا تھا۔ یہ 33 سالہ کسان اب دو بڑے سولر پاور نظاموں کا مالک ہے۔ ایک کے سائے میں بیریز اگتی ہیں۔ پانچ برس قبل کارٹہاؤس نے مغربی جرمن قصبے پیڈربون میں اپنے والد کے فارم کی ملکیت لی۔
الیکٹریکل انجینیرئنگ کے تربیت یافتہ کارٹہاؤس دن کے وقت زرعی الیکٹرونکس کے شعبے میں پروڈکٹ مینیجر کے بہ طور کام کرتے ہیں، ''میں اسی ہیکڑز زمین پر مٹر، گیہوں اور دیگر اجناس کی فصلوں کی آمدن سے اپنے خاندان کا پیٹ نہیں پال سکتا۔‘‘
حالیہ کچھ برسوں میں گرمی اور خشک سالی نے بھی زرعی پیداوار میں خاصی کمی کی ہے، ''میں نے اور میری اہلیہ نے سوچنا شروع کیا کہ کس طرح ہم اپنے اس فارم کا زیادہ بہتر استعمال ممکن بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ فارم میں سولر پینلز لگائے جائیں اور ان پینلز کے نیچے بیریز۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ''ہم نے سوچا کہ کون سے بیریز اس روشنی اور چھاؤں میں بہتر نشوونما پاتے ہیں؟ بلوبیریز اور رسبیریز جنگلاتی پودے ہیں، اس لیے یہ ایسے ماحول میں خوب پھلتے پھولتے ہیں۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ برس اچھی فصل ہوئی۔ عموماﹰ پودے باہر اگائے جاتے ہیں یا سردی میں فوئل ٹنلز کے ذریعے مگر کارٹہاؤس کو لگتا ہے کہ اس ماڈل کے ذریعے بیریز کی پیدوار میں اضافہ ہو گا کیوں کہ یورپ میں شدید گرمیاں پودوں کے لیے ایک مسئلہ بنتی جا رہی ہیں۔
جرمنی میں بھی موسم گرما اب ماضی کے مقابلے میں کہیں شدید دیکھا جا رہا ہے۔کارٹہاؤس کا کہنا ہے کہ سولر ماڈیولز ایک طرف تو آبی بخارات کو روک پانی بچاتے ہیں اور ساتھ ہی پودے کو دھوپ سے بچاؤ کے لیے چھت بھی فراہم کر دیتے ہیں، ''ہم نے ناپ کر دیکھا ہے کہ کھلے میدانوں میں پودوں کے مقابلے میں سولر ماڈیولز کے نیچے موجود پودوں سے آبی بخارات کا اڑنا ایک چوتھائی ہے۔
ظاہر ہے ان ماڈیولز کے ذریعے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ سات سو پچاس کلوواٹ پاور کےذریعے یہ نظام چھ لاکھ چالیس ہزار کلوواٹ آور سالانہ بجلی پیدا کرتا ہے، جو ایک سو ساٹھ گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔
دنیا میں شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا رہا ہے
دنيا بھر کے شہری و ديہی علاقوں ميں ہر سطح پر شمسی توانائی کے حصول کے ليے نت نئے منصوبے ابھر رہے ہيں، جو ماحول دوست بھی ہيں اور ہر کسی کے پہنچ ميں بھی ہيں۔ اس پکچر گیلری میں ایسے ہی کچھ منصوبوں کے بارے میں جانیے۔
تصویر: Gemeinde Saerbeck/Ulrich Gunka
سورج کی شعاؤں سے پينے کے پانی کا حصول
ايتھوپيا کے ديہات ريما ميں شمسی توانائی کی مدد سے چلنے والا ايک واٹر پمپ نصب ہے۔ پانی کا کنواں آبادی سے ذرا دور ہے۔ قبل ازيں وہاں ڈيزل سے چلنے والا پمپ لگا ہوا تھا، جو اکثر خراب پڑا رہتا تھا۔ اب حالات بدل گئے ہيں۔ شمی توانائی سے چلنے والا واٹر پمپ چھ ہزار افراد کو بلا رکاوٹ پانی فراہم کر رہا ہے، وہ بھی ماحول دوست انداز ميں۔
تصویر: Stiftung Solarenergie
موبائل فون چارجنگ کے ليے شمسی توانائی
مشرقی افريقہ کے زيادہ تر حصوں ميں اب بھی بجلی ميسر نہيں ہے۔ ايسے ميں شمسی توانائی کی چھوٹی چھوٹی دکانيں ابھر رہی ہيں۔ يہ منظر کينيا کے ايک چھوٹے شہر کا ہے۔ اس دکان کی چھت پر سرلر پينل نصب ہيں اور صارفين معمولی رقم دے کر اپنے موبائل فون وغيرہ چارج کر سکتے ہيں۔ يوں اپنوں کے ساتھ رابطہ، انٹرنيٹ کے ذريعے رقوم کی ادائيگی اور منڈيوں کے حال احوال کا پتا لگ جاتا ہے۔
تصویر: Solarkiosk GmbH
شمسی توانائی سے کسانوں کا بھی فائدہ
يہ وسطی امريکا کے ملک نکاراگوا کے ديہات ميرافلورس کا منظر ہے۔ يہاں زيادہ تر لوگ زراعت سے وابستہ ہيں۔ سن 2013 تک يہاں بجلی دستاب نہ تھی۔ پھر مقامی سطح پر کام کرنے والے اليکٹريشنز نے علاقے کے لگ بھگ چھ سو خاندانوں کے ليے سولر پينلز متعارف کرائے۔ نتيجتاً اب ان کسانوں کو ٹيلی وژن، فریج اور ديگر اشياء کے ليے بجلی دستياب ہے۔
تصویر: Stefan Jankowiak
شہری ترقی اور ماحول دوست طرز تعمير کی مثال
يہ جنوبی جرمن شہر فرائی برگ کی ايک کميونٹی کی تصوير ہے۔ اس رہائشی کمپليکس ميں تمام عمارات کی چھتوں پر سولر پينلز نصب ہيں اور يہاں ضرورت سے زائد بجلی پيدا ہو رہی ہے۔ يہ منصوبہ موجودہ دور ميں شہری ترقی اور ماحول دوست طرز تعمير کی ايک مثال ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Haid
مائیکرو گرڈز: ديہی علاقوں ميں ترقی کی ضمانت
بنگلہ ديش ميں ’سول شيئر‘ نامی اسٹارٹ اپ ديہی علاقوں ميں کم قيمت بجلی فراہم کرتا ہے۔ کمپنی نے کئی علاقوں ميں اس طرز کے مائیکرو گرڈز نصب کر رکھے ہيں جو مقامی سطح پر لوگوں کی ضروريات پوری کرتے ہيں۔ تمام گرڈز ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہيں يعنی جن افراد کے مکانات پر يہ گرڈز نہيں، انہيں بھی بجلی فراہم ہوتی ہے۔
تصویر: ME SOLshare Ltd.
کووڈ کے خلاف بھی شمسی توانائی موثر
يہ ہيٹی کے تبارے نامی علاقے کا ايک ہسپتال ہے۔ چھت پر نصب سولر پينلز مجموعی طور پر سات سو دس کلو واٹ بجلی پيدا کرتے ہيں۔ اس ہسپتال ميں کورونا کے مريضوں کا علاج ہوتا ہے اور بجلی کی تمام تر ضروريات شمسی توانائی سے ہی پوری ہوتی ہيں۔ ہر سال ايندھن کی قيمتوں ميں پچاس ہزار يورو کی بچت ہوتی ہے اور ماحول کو بھی کوئی نقصان نہيں پہنچتا۔
تصویر: Biohaus-Stiftung.org
پورے کے پورے گاؤں کے ليے منی گرڈ
کينيا کے تالک نامی گاؤں ميں ڈيڑھ ہزار افراد رہتے ہيں۔ يہاں سن 2015 سے شمسی نوانائی کا نظام نصب ہے، جو پورے کے پورے گاؤں کی بجلی کی ضروريات پوری کرتا ہے۔ پچاس کلو واٹ پيدا کرنے والا ايک گرڈ گاؤں کے نواح ميں نصب ہے جبکہ بيٹرياں گاؤں کے قريب لگی ہوئی ہيں۔ جارج نوبی اس پلانٹ کی ديکھ بھال کرتے ہيں۔
تصویر: Imago Images/photothek/T. Imo
ريگستان ميں بھی زندگی کی علامت
مصر کے ريگستان ميں پانی کی شديد قلت ہے۔ El-Wahat el-Bahariya کے نخلستان پر قائم يہ شمسی توانائی کا اسٹيشن پانی پمپ کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ اسی سبب وہاں چھوٹے پيمانے پر پھل، سبزياں بھی اگائے جا سکتے ہيں۔ تصوير ميں مقامی لوگ پينلز پر سے مٹی اور ريت صاف کر رہے ہيں۔
تصویر: Joerg Boethling/imago images
کوپن ہيگن کچھ ہی سال ميں ’کلائميٹ نيوٹرل‘
ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہيگن کی انتظاميہ کا ہدف ہے کہ سن 2025 تک ’کلائميٹ نيوٹرل‘ ہو جائے يعنی کاربن گیسوں کے اخراج کی مجموعی شرح صفر ہو۔ شہر ميں بڑی تيزی کے ساتھ بنيادی ڈھانچا کھڑا کيا جا رہا ہے اور کوشش ہے کہ توانائی کے حصول کے ليے ماحول دوست تنصيبات لگائی جائيں۔
تصویر: picture alliance / Zoonar
انرجی پارک پورے ملک کے ليے ايک ماڈل
مغربی جرمنی کے اس چھوٹے سے شہر سار بيک ميں مقامی آبادی کی ضرورت سے کہيں زيادہ بجلی پيدا ہوتی ہے اور وہ بھی سورج، ہوا اور بايو ماس کے ذريعے۔ يہ انرجی پارک پورے ملک کے ليے ايک ماڈل کی حيثيت رکھتا ہے۔ حال ہی ميں امريکا کے ايک وفد نے کچھ سيکھنے کے مقصد سے علاقے کا دورہ کيا تھا۔
تصویر: Gemeinde Saerbeck/Ulrich Gunka
10 تصاویر1 | 10
گرڈ میں پہنچانے پر کارٹہاؤس کو چھ سینٹ فی کلوواٹ آور پیسے ملتے ہیں۔ وہ اس بنائی گئی بجلی میں سے کچھ خود بھی ریفریجریشن وغیرہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ بجلی مہیا کرنے والے اداروں سے بجلی خریدیں تو وہ پچیس سینٹ فی کلوواٹ آور کی پڑتی ہے
جرمنی میں یہ طریقہ سیبوں، چیریز، آلوؤں، ٹماٹروں اور کھیروں کے لیے بہترین کام کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں اپنی اپنی آب و ہوا کے اعتبار سے دیگر پودے بھی اس طریقے سے اگائے جا سکتے ہیں۔