1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

کھیلوں کے میدان میں مقابلہ بازی: ڈپریشن میں اضافہ

7 مارچ 2023

ایک طرف تو ڈاکٹرز مریضوں کو ورزش اور اسپورٹس کا مشورہ دیتے ہیں، دوسری جانب کھیلوں کا میدان ہی کھلاڑیوں میں ڈپریشن کے اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

Trauer um Robert Enke
تصویر: picture-alliance/dpa

کھیل کی دنیا میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں جیسے موضوعات شجر ممنوعہ سے کم نہیں۔ جہاں ڈاکٹر اپنے مریضوں کو ڈپریشن کے مختلف مراحل میں ان کے علاج کے طور پر ورزش کا مشورہ دیتے ہیں، وہاں یہ بھی اکثر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ خود کھیل کے دوران مسابقتی ماحول کھلاڑیوں میں ڈپریشنجیسے ذہنی عارضے کو متحرک کرنے کا سبب بنتا ہے۔   

اس ضمن میں جرمن قومی ٹیم کے گول کیپر، رابٹ اینکے کی خود کشی کا واقع ایک بھیانک مثال ہے۔ رابٹ اینکے ایک پیشہ ور کھلاڑی تھا  مگر کھیل کے میدان میں ہمیشہ بہترین کارکردگی دکھانے کے دباؤ نے اسے ڈپریشن میں مبتلا کر دیا جو بالآخر اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اینکے کی  خودکشی کے واقعے نے باقی کھلاڑیوں کواپنی نفسیاتی حالت اور ذہنی بیماریوں کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ترغیب دلائی۔

 یاد رہے کہ 10 نومبر 2019 ء کو جرمن قومی فٹ بال ٹیم کے گول کیپر رابرٹ اینکے نے 32 سال کی عمر میں خودکشی کر لی تھی۔

 

پیشہ ورانہ کھیل میں ڈپریشن کا امکان

کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کے اندر بڑھتے ہوئے ڈپریشن کی شرح اور وجوہات کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے جرمن اسپورٹ یونیورسٹی، کولون کے شعبہِ نفسیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ژینس کلائینرٹ نے بتایا،''پیشہ ورانہ کھیل میں ڈپریشن اوسطاًٰ 5 فیصد لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔

جرمن پروفیسر کا مزید کہنا تھا کہ کھیل عموماً لوگوں کو ان کے فارغ اوقات میں  ڈپریشنکے عوارض سے بچاتا ہے لیکن یہ پیشہ ورانہ کارکردگی کے شعبے میں اضافی تناؤ بھی پیدا کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر کھلاڑیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلسل اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کریں جس سے ان پر دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے اور کچھ کھلاڑی ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

بڑے سے بڑا اور مشہور کھلاڑی بھی کسی وقت بھی ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کھلاڑیوں میں ڈپریشن کی ممکنہ وجوہات

کھیل کے دوارن اکثر پوری دنیا عالمی سطح کے کھلاڑیوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے جس سے کھلاڑیوں پر ایک خاص دباؤ پڑ جاتا ہے جس سے نمٹنا بعض دفعہ ذہنی تناؤ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مزید برآں اکثر ایتھلیٹ ہارنے کی صورت میں دل برداشتہ ہو کر 'سیلف ڈاؤٹ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کھیل کے دوران زخمی ہونے والے ایتھلیٹ بعض دفعہ کئی مہینے زیرِ علاج رہتے ہیں اور اس دوران وہ تربیتی پروگراموں اور دوسری ٹریننگز سے باہر ہو جاتے ہیں جس سے انکو ایک 'سینس آف لاس‘ محسوس ہونے لگتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اکثر ایتھلیٹ سیلف ڈاؤٹ کا شکار ہو کر، اپنی قدر و قیمت کے احساس  اور خود اعتمادی کو کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بارے میں پروفیسرژینس کلائینرٹ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ،''کام سے قاصر ہونا کھلاڑی کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور جب یہ تکلیف شدید سطح تک پہنچ جاتی ہے تو افسردگی اور ڈپریشن کے دورے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔‘‘

محبت بھرے تعلق اور رشتے کو شدید نقصان پہنچانے والی بیماری

ڈپریشن کی علامات

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک کھلاڑی کو پتا کیسے چلے کہ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہو رہا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کرسٹینا بالڈاسرے  جوسوئس کھیلوں کی ماہر نفسیات ہیں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ  ڈپریشن کی عام علامات میں بے حسی، اداسی اور کم سے کم خوشی شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ''جب کھلاڑی میرے پاس آتے ہیں تو بہت روتے ہیں۔ ان میں اکثر کو علم نہیں ہوتا کہ تربیت اور مقابلے کے دباؤ سے کیسے نمٹا جائے۔ اور اسی وجہ سے ان کی کارکردگی مزید بدتر ہوتی جاتی ہے مگر وہ اس بات سے لا علم رہتے ہیں اور مزید دباؤ میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ کھلاڑی اپنے مقابلے منسوخ کر دیتے ہیں یا ٹریننگ میں جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس حوصلے کی کمی ہوتی ہے، وہ تھکان محسوس کرتے ہیں اور خود پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ کو یہ بھی لگنے لگتا ہے کہ ان کے کوچ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے ہیں اور وہ منفی سوچوں کے ایک گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔‘‘

ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے

کھیل میں ڈپریشن کا ممکنہ حل

تاہم کرسٹینا بالڈاسرے اس معاملے کو لے کر پُر امید ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ڈپریشن جیسے مرض سے بآسانی نمٹنے کے لیے صرف پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ، ''کوچ کو چاہیے کہ وہ کھیلوں اور ٹریننگز کے دوران کھلاڑیوں کے اندر مثبت پہلوؤں کی نشاندہی کریں کھلاڑیوں کو نہ صرف ان کی کارکردگی سے پرکھیں بلکہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور خوشی محسوس کرنے کی اجازت دیں اور کھلاڑیوں کی انفرادی ریکگنیشن کو یقینی بنائیں۔

شاہین کی بورسیا ڈورٹمنڈ کو واپسی

اس بارے میں پروفیسرژینس کلائینرٹ کا بھی ایسا ہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''ہر ایک کھلاڑی کی ذاتی ترقی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی ٹرائی ایتھلیٹ جرمن یا عالمی چیمپئن شپ میں سرفہرست رہنے کے معیار کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے، تو کوچز، فزیو تھراپسٹ اور والدین کو اس فرد کی ذاتی ایتھلیٹک ترقی کو دیکھنا چاہیے۔"

اگرچہ طویل عرصے تک کھلاڑیوں کا عوامی سطح پر اپنی ذہنی بیماریوں کو تسلیم کرنا ایک معیوب عمل سمجھا جاتا رہا ہے مگر اب حکومتی سطح پر اس اقدام  کی ضرورت ہے کہ کھیلوں کے میدان میں ڈپریشن جیسے مرض کی اگاہی اور علاج کے لیے مختلف اسپورٹس پرفارمنس سینٹرز میں ماہر نفسیات کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔

ک ر/ ک م( میلانی لاسٹ)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں