1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھیل تو محبت کا درس دیتے ہیں!

1 جولائی 2019

انگلینڈ اور ویلز میں جاری عالمی کپ کرکٹ کے گروپ میچ میں جب پاکستان اور افغانستان مدمقابل آئے تو پاکستانی شائقین کے ایک حلقے نے افغان ٹیم کے جیتنے کے عزم کو ’نمک حرامی‘ قرار دے دیا۔

Deutsche Welle Asien Urdu Atif Baloch
تصویر: DW/P. Henriksen

ہیڈنگلی کے میدان میں شائقین کا ردعمل ایسا پرتشدد اور جنونی تھا، جو اس سے پہلے انگلینڈ کے کسی کرکٹ گراونڈ میں نہیں دیکھا گیا۔

 اس میچ سے پہلے اور بعد میں بعض پاکستانی شائقین سوشل میڈیا پر افغان قوم کے لیے نفرت بھرے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ دوسری طرف افغان شائقین کے کچھ حلقوں کی طرف سے بھی ایسا ہی ردعمل دیکھنے کو ملا۔

پاکستانیوں کو اپنے افغان بھائیوں سے اتنی نفرت کس نے اور کیوں سیکھائی؟

پاکستان میں خاکروب سے لے کر وزیر اعظم تک، سبھی کہتے ہیں کہ یہ سابق فوجی جنرل ضیا الحق کی آمرانہ پالیسیاں ہی تھیں، جن کی قیمت پاکستان آج تک ادا کر رہا ہے۔

 ضیا الحق کی افغان پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسی پالیسی کے نتیجے میں افغانستان میں قیام امن مشکل ہے اور پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے۔
اچھی طرز حکمرانی کا فقدان، انتہا پسندی میں شدت، سیاست میں فوج کا کردار، آزادی صحافت اور اظہار پر پابندیاں یا خواتین کے حقوق کی تلفی یہ اور دیگر سیاسی و معاشرتی مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، جن پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار جنرل ضیا کو قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستانی شائقین سوشل میڈیا پر افغان قوم کے لیے نفرت بھرے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ دوسری طرف افغان شائقین کے کچھ حلقوں کی طرف سے بھی ایسا ہی ردعمل دیکھنے کو ملاتصویر: Action Images via Reuters/L. Smith

’دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہوتے‘

لیکن ضیا کی آمریت کو ختم ہوئے عرصہ ہو چکا ہے لیکن صورتحال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس کی ایک وجہ غالبا یہ بھی ہے کہ ہم نے شاید افغانستان کو ایک خودمختار ملک تصور ہی نہیں کیا۔

 افغانستان کے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے پر بھی پاکستان کے کئی حلقوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالبا ایک کرکٹ میچ پر پاکستان میں افغان عوام کو 'احسان فراموش‘ اور 'نمک حرام‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

حالانکہ ایک آزاد ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر کسی دوسرے ملک بلکہ یہاں تو یہ بھی مناسب ہو گا کہ کسی دوسرے ملک کے عوام کو اس طرح سیخ پا نہیں ہونا چاہیے۔

بطور کرکٹ فین پاکستان اور افغانستان کے میچ کے دوران اسٹیڈیم میں جو کچھ ہوا اور بعد ازاں سوشل میڈیا میں جو ناشائستہ بحث شروع ہوئی، اس پر مجھے بہت زیادہ رنج اور تکلیف ہوئی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین اس اور دیگر تلخیوں کا مداوا اسی میں ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقے ماضی میں کی گئی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے سدھارنے کی کوشش کریں۔

ماضی میں جو ہوا، سو ہو گیا۔ اب آگے بڑھنا ہے اور مسائل کی ذمہ داری کسی پر عائد کیے بغیر ہم نے اپنی مشترکہ بہتری کے لیے خود کوشش کرنا ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہم نے جنرل ضیا الحق کو صرف ’قربانی کا بکرا‘ ہی بنایا ہوا ہے؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں