افغان خواتین فٹ بالرز:کھیل کا شوق یا شناخت کی تلاش
2 نومبر 2025
افغانستان کی خواتین کی فٹ بال ٹیم اپنے چار سال بعد دوبارہ اپنے ملک کے لیے کھیلنے کے لیے تیار ہے۔ طالبان کے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں یہ تمام کھلاڑی تتر بتر ہو گئی تھیں۔
سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ بظاہر ایک عام سا لمحہ لگتا ہے۔ فٹ بال کا میچ جاری ہے اور میدان میں ایک کھلاڑی زمین پر گر رہا ہے۔ ریفری کی سیٹی۔ پینلٹی پر گول کا ہونا۔ ایک ابتدائی برتری۔لیکن جب منوز نوری نے اپنے پہلے بین الاقوامی کھیل میں اپنے پہلے بین الاقوامی گول کا جشن منانے کے لیے آسمان کی طرف ہاتھوں کو فضا میں بلند کیا، تو یہ منظر کی اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لیے اہمیت بہت زیادہ تھی۔ منوش نوری نے یہ صرف ایک گول کا جشن نہیں منایا بلکہ وہ اپنے ملک کی خواتین کے لیے خوشی، آزادی اور پہچان کا اعلان کر رہی تھیں۔
''یہ سب کے لیے خوشی کا لمحہ تھا۔‘‘ نوری نے میچ کے بعد ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے تمام ساتھی میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے گلے لگایا۔ یہ ہم سب کے لیے بہت خوشگوار لمحہ تھا۔ میں اس خوشی کو افغانستان میں رہنے والوں کے نام کرتی ہوں ، کیونکہ وہ خوشی کے مستحق ہیں۔‘‘
افغان لڑکیوں اور خواتین پر زندگی تنگ
طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد افغانستان کی خواتین فٹ بال کھلاڑی دنیا کے مختلف حصوں میں جلاوطنی کی زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔ فٹ بال کے میدان میں اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے چار سال کی جدوجہد کے بعد اب وہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
نو تشکیل شدہ افغان مہاجر خواتین کی فٹ بال ٹیم کو فیفا یونائیٹس : ویمنز ٹورنامنٹ میں 23 سے 29 اکتوبر تک چاڈ، لیبیا اور میزبان ملک متحدہ عرب امارات کے خلاف میچز کھیلنا تھے۔ لیکن متحدہ عرب امارات کی جانب سے کھلاڑیوں کو انٹری ویزا دینے سے انکار کے بعد ٹورنامنٹ 26 اکتوبر سے مراکش میں شروع ہو گیا ہے۔
افغان ڈیفنڈر عارفی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''اس وقت ہمارے جذبات عروج پر ہیں۔ یہ مقابلے کے لیے جوش و خروش اور توقعات کا مجموعہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت زیادہ ذمہ داری بھی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ صرف افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کی شرٹ پہننے کے بارے میں نہیں ہے، یہ بہت سی افغان خواتین کے تشخص کی نمائندگی کرنے کے بارے میں ہے جن کی آوازیں خاموش ہو چکی ہیں اور ان کے پاس دنیا کو بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ان کے بقول،''انہیں ان کے تمام انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘‘
2021ء میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں سے حقوق تقریباً مکمل طور پر چھین لیے گئے ہیں۔ وہ محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں۔ انہیں پرائمری اسکول سے آگے کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں اور روزمرہ کے بہت سے کاموں کے لیے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
زندگی میں راتوں رات کی تبدیلی
طالبان کی سابقہ حکومت کے زوال یعنی 2001 کے بعد گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خواتین نے کھیلوں میں جو ترقی کی تھی، وہ اب ایک بار پھر رک چکی ہے۔ طالبان کی نئی حکمرانی نے ان سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی، جس کے نتیجے میں عارفی جیسی نوجوان خواتین کے لیے وطن چھوڑنا ہی واحد معقول راستہ بچا۔ اُس وقت وہ محض 17 برس کی تھیں۔
''میں تقریباً ایک ماہ تکطالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں رہی ۔ ایک لڑکی کے طور پر، یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ میری تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ طالبان نوجوان لڑکیوں سے شادیاں کر رہے تھے۔ یہ خبر پھیل رہی تھی اور میرے والدین بہت پریشان تھے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے۔‘‘
''کھیلوں کی سرگرمیوں نے ہمارے لیے زندگی کو مزید خطرناک بنا دیا تھا۔ میں گھر سے خریداری یا کچھ بھی کرنے کے لیے نہیں نکل سکتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں جیل میں ہوں۔‘‘
کیا افغانستان میں خواتین ٹورنامنٹ دیکھ سکیں گی؟
عارفی، جو اب برطانیہ میں مقیم ہیں، نے اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے رابطہ رکھنے کی کوشش کی ہے، جو اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ لیکن طالبان کی جانب سے سوشل میڈیا تک رسائی پر وسیع پیمانے پر پابندیاں اور ستمبر کے آخر میں انٹرنیٹ کی بندش نے افغان شہریوں خاص طور پر خواتین کو مزید الگ تھلگ کر دیا ہے۔عارفی کہتی ہیں، ''ہمیں واقعی اُمید ہے کہ وہ ہمارے مقابلے دیکھ سکیں گی اور اس سے ان میں ایک تحریک پیدا ہو گی، کیونکہ اس وقت افغانستان میں بہت سی منفی چیزیں ہو رہی ہیں۔‘‘
اس ٹورنامنٹ کو فیفا کی جانب سے براہ راست نشر کیے جانے کی بات تھی، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کی میڈیا پر سینسر شپ کی وجہ سے کتنی لڑکیاں اور خواتین اسے دیکھ سکیں گی۔
یہ ٹورنامنٹ افغان خواتین کے فٹ بال کی فیفا کے فریم ورک میں باضابطہ واپسی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ جس مقصد کے لیے ان کھلاڑیوں نے کام کیا ہے۔ سابق کپتان خالدہ پوپل کی قیادت میں کئی نوجوان کھلاڑیوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے سخت محنت کی ہے۔
ادارت: عدنان اسحاق