کھیل: پاکستانی خواتین کی ناکامیوں کی وجوہات ؟
2 جولائی 2013![](https://static.dw.com/image/16918013_800.webp)
ملکی خواتین کے کھیل میں پیچھے رہ جانے کی بابت پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ کھیل کی سربراہ اور پاکستان ویمن ہاکی ٹیم کی سابقہ کپتان شمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں خواتین ایتھلیٹس کے لیے ڈویلپمنٹ کے پروگرام نہیں، ’’ان کے کھیل کا عرصہ کم ہے، میٹرک میں شروع ہوکر ان کی اسپورٹس کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور اگر کوئی آگے بڑھنا بھی چاہے تو تسلسل کی کمی ہے۔ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے مواقع نہیں مل پاتے۔‘‘
طاہرہ حمید کو پاکستان کی پہلی نامور خاتون ایتھیلٹ سمجھا جاتا ہے۔ انیس سو پچپن میں طاہرہ حمید نے کلکتہ میں ایشیائی ٹینس چمپیئن شپ میں اپنے پارٹنر افتخار احمد کے ساتھ مکسڈ ڈبل فائنل کھیل کر پہلے شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور اس کے تین برس بعد شلوار قمیص میں ملبوس طاہرہ نے ویمبلڈن میں شرکت کرکے سب کو حیران کر دیا۔ اس کے بعد شبانہ اختر سے رباب رضا اور رابعہ عاشق تک پاکستانی خواتین ایتھلیٹس کی اولمپکس تک رسائی ضرور ہوئی ہے مگر وہ کوئی سنگ میل عبور نہ کرسکیں۔
شمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اسپورٹس فیڈریشنز نان ٹیکنیکل عہدیداروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں ویمن ہاکی انیس سو چوہتر میں شروع ہوئی تھی ۔ گزشتہ تیس برس سے اسے ایک ہی خاتون چلا رہی ہے اور وہ کبھی کسی کے سامنے جوابدہ نہیں رہیں۔ اس کے مقابلے میں پی سی بی نے خواتین کرکٹ ٹیم کی داغ بیل دو ہزار پانچ میں ڈالی اور تین سال بعد ٹیم عالمی کپ کے لیے کوالیفائی کر گئی۔
پاکستان کی اولمپیئن تیراک کرن خان کہتی ہیں کہ کرکٹ کے علاوہ پاکستان میں کسی دوسرے کھیل کی پذیرائی نہیں، ’’میڈیا صرف کرکٹ کو اہمیت دیتا ہے دیگر کھیلوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک ہونے کے سبب بھی خواتین کھلاڑی آگے نہیں بڑھ سکیں۔ فنڈز نہ ملنے کی وجہ ہم بیرون ملک مقابلوں میں شرکت نہیں کرسکتیں تو عالمی ایونٹس کس طرح جیتے جا سکتے ہیں۔‘‘
کئی پاکستانی خواتین ایسی بھی ہیں، جنہوں نے مشکل حالات میں جلد بڑی کامیابیاں سمیٹیں اور پھر وہ منظرعام سے غائب ہوگئیں۔ دو ہزار دس میں ڈھاکہ میں سو میٹر کی دوڑ جیت کر جنوبی ایشیا کی تیز ترین خاتون بننے والی نسیم حمید بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ نسیم حمید کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ماریہ طور نے سکواش میں نام کمایا مگر جلد ہی وہ بھی کینیڈا سدھار گئیں۔ اس اقدام کی بابت ماریہ طور نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کے سبب انہیں کینیڈا منقتل ہونا پڑا، ’’یہاں خواتین کے کھیلنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ مجھے ویزے بروقت نہیں ملتے تھے، بین الاقوامی ٹورنامنٹس نہ کھیلنے سے میری رینکنگ متاثر ہورہی تھی اس لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔ امن بحال ہو جائے تو پاکستان جیسا دوسرا کوئی ملک نہیں۔‘‘
دلچسپ امر یہ ہے کہ سرحد کے اس پار بھارت میں ساینا نہوال، میری کوم یا ثانیہ مرزا جیسی خواتین نے چمپیئن بن کر دکھا دیا ہے کہ برصغیر کی خواتین کے لیے یہ کام ناممکن نہیں۔ اس بارے میں شمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ وہاں خواتین اسپورٹس کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے، ’’کھلاڑیوں کا پول بڑا ہے مگر یہاں بھی اگر منتخب کھیلوں کے پائلٹ پروجیکٹ بنائے جائیں، مارشل آرٹس، ایتھلیٹکس ، تیراکی، نیزہ بازی اور ریکٹ اسپورٹس پر توجہ دی جائے تو پاکستانی خواتین کو عالمی مقابلوں میں پوڈیم سے دور رکھنا ممکن نہ ہوگا۔‘‘