کیا آنگ سان سوچی سے نوبل امن انعام واپس لے لینا چاہیے ؟
بینش جاوید
6 ستمبر 2017
روہنگیا بحران کے حوالے سے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی خاموشی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی افراد سوچی سے نوبل امن انعام واپس لیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اشتہار
برطانیہ کے نامور اخبار ’دا گارڈین‘ کے کالم نگار جورج مانیگ بوٹ نے ایک طاقتور تحریر میں مطالبہ کیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا اقلیتی گروہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر سوچی کی خاموشی مجرمانہ ہے اور اس وجہ سے سوچی سے نوبل امن انعام واپس لے لیا جانا چاہیے۔
مانیگ بوٹ نے اپنے کالم میں لکھا ہے،’’مجھے شک ہے کہ سوچی نے روہنگیا آبادی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ نہیں پڑھی۔ اس رپورٹ کے مطابق روہنگیا خواتین اور بچیوں کا ریپ کیا گیا۔ کئی خواتین جنسی زیادتی کے باعث اپنی جان کھو بیٹھیں۔ کئی بچوں اور بڑوں کے گلوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنےکاٹ دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک حاملہ عورت کو میانمار کے فوجیوں نے مارا پیٹا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے دیہاتیوں پر گولیاں برسائی گئیں۔‘‘
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Aung Shine Oo
14 تصاویر1 | 14
مانیگ بوٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ انہیں اندازہ ہے کہ میانمار کی فوج طاقت ور ہے اور سوچی ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتی لیکن سوچی کے پاس ایک کام کرنے کی بہت زیادہ قوت ہے اور وہ بولنے کی قوت ہے لیکن وہ مکمل طور پر خاموش ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا ہے کہ بے وطن روہنگیا کمیونٹی کو ’نسل کشی کے خدشات‘ کا سامنا ہے۔ میانمار کے اس بحران کے نتیجے میں چار سو افراد ہلاک جبکہ ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے ینگون حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ راکھین میں روہنگیا برادری کے خلاف جاری فوجی کارروائی فوری طور پر روک دے۔
ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کی جانب سے روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تنقید کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر کئی افراد ایسی ’پیٹیشن‘ شئیر کر رہے ہیں جس میں سوچی کے نوبل امن انعام کو واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ گارڈین اخبار کے کالم نگار جورج مانیگ بوٹ نے بھی اپنے کالم میں ایسی پیٹیشن پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پیٹیشن پر اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد دستخط کر چکے ہیں۔
بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟
01:56
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پچیس اگست سے شروع ہونے والے اس بحران کے بعد سے اب تک تقریباً سوا لاکھ روہنگیا پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔ روہنگیا برادری سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ میانمار کے فوجی اہلکاروں نے ان کے گھروں کو نذر آتش کیا اور لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔