کیا آٹھ گھنٹے کی نیند بہترین ہے؟ دوبارہ سوچیے!
4 مئی 2022ہم میں سے زیادہ تر افراد اسے ایک اصول بنا چکے ہیں کہ بالغوں کے لیے پوری رات کی نیند کا مطلب آٹھ گھنٹے سونا ہے۔ لیکن جب لوگ ایک خاص عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو یہ بات سچ نہیں رہتی۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج اور چین کی فوڈان یونیورسٹی کے محققین کی ایک ٹیم کے مطابق ادھیڑ عمر اور بوڑھے لوگوں کے لیے سات گھنٹے کی نیند بہترین رہتی ہے۔ نیچر ایجنگ جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں محققین کا کہنا تھا کہ سات گھنٹے کی نیند تخلیقی کارکردگی اور اچھی دماغی صحت کے لیے بہترین ہے۔
محققین نے 38 سے 73 سال کی عمر کے تقریباً پانچ لاکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ناکافی نیند یا پھر ضرورت سے زیادہ نیند کا تعلق تخلیقی کارکردگی کی خرابی اور بدتر ذہنی صحت سے ہے۔ اس تحقیق میں شامل افراد نے اپنی نیند کے حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم کیں اور تخلیقی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے بارے میں سوالات کے جوابات بھی دیے۔
شرکاء نے متعدد علمی کاموں کو مکمل کیا، جن میں ان کی پروسیسنگ کی رفتار، بصری توجہ، یادداشت اور مسئلہ حل کرنے کی مہارت کا تجربہ کیا گیا اور جن لوگوں نے سات گھنٹے کی بلا تعطل نیند لی تھی، انہوں نے پورے بورڈ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
لیکن اس مطالعے میں شامل 94 فیصد افراد سفید فام تھے لہذا یہ واضح نہیں ہے کہ دیگر رنگ و نسل یا مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والوں کے لیے بھی یہی نتائج درست ہیں۔
ایک اور اہم عنصر مستقل مزاجی ہے۔ بہترین نتائج ان لوگوں میں دیکھے گئے، جنہوں نے طویل عرصے تک اپنی نیند کے انداز میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں دکھائی اور جو لگاتار سات گھنٹے تک سوتے رہے۔
نیند میں خلل، ڈیمنشیا کا خطرہ
کیمبرج یونیورسٹی کی پروفیسر اور اس تحقیق کی شریک مصنف باربرا سہاکیان کہتی ہیں، ''رات کی اچھی نیند لینا زندگی کے تمام مراحل میں اہم ہے لیکن جیسے جیسے انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے، اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔
محققین کے مطابق نیند کی کمی دماغ کے زہریلے مادوں سے نجات پانے کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیند کی ہلکی لہر یا گہری نیند میں خلل دماغی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
جب گہری نیند میں خلل آتا ہے تو یہ یادداشت کے استحکام کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے امائلائیڈ کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا پروٹین ہے، جو پہلے کی طرح کام نہ کرنے تو دماغ میں ''الجھن‘‘ پیدا کر سکتا ہے، جو ڈیمنشیا کی کچھ شکلوں کی خصوصیت ہے۔
ناکافی یا ضرورت سے زیادہ نیند بڑھاپے میں دماغی صلاحیتوں میں کمی کے خطرہ کا عنصر ہو سکتی ہے۔
نیند کی طوالت دماغ کی ساخت کو متاثر کرتی ہے
محققین نے دماغی تخیل اور جینیاتی ڈیٹا کو بھی جانچا لیکن یہ ڈیٹا صرف چالیس ہزار سے کم شرکاء سے متعلق تھا۔
ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ نیند کی مقدار دماغی حصوں کی ساخت میں فرق پیدا کر سکتی ہے، جیسے کہ ہپپوکیمپس، جسے دماغ کی یادداشت اور سیکھنے کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اور پری سینٹرل کورٹیکس، جو رضاکارانہ حرکتوں کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار ہے۔
تاہم اس حوالے سے محققین مزید کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سہاکیان کا مزید کہنا تھا کہ اس تحقیق سے بوڑھے لوگوں میں نیند کو بہتر بنانے کے طریقے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمر رسیدہ افراد کی اچھی دماغی صحت اور تندرستی کو برقرار رکھنے اور ان کی دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ذوالفقار ابنے، ا ا / ع ب