میری بہو نے تو پورا گھر سنبھال رکھا ہے۔ فجر کے وقت اٹھتی ہے اور پورے گھر کا ناشتہ بناتی ہے ، ہمارے گھروں میں کام کرنے کے لیے ملازم رکھنے کا رواج نہیں، سب کام بہو خود کرتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ ایک اچھی بہو کی تعریف ہے۔
مجال ہے میری بیوی میری مرضی کے خلاف گھر سے باہر قدم رکھے۔ وہ تو اپنے میکے بات بھی میرے فون سے کرتی ہے۔ پورا دن کام سے تھک کر جاؤں تو گرم کھانا تیار ملتا ہے۔ سارا دن گھر بیٹھ کر عیاشی ہی تو کرتی ہے ، محنت تو ساری میں کرتا ہوں۔ بہت ڈرتی ہے مجھ سے کیوں کہ میرے مزاج کے خلاف کچھ ہو تو غصہ میں ہاتھ اٹھ جاتا ہے ، اس لیے قابو میں ہے۔ بھئ زمانہ بھی قابو میں رکھنے ہی کا ہے ورنہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں یہ عورتیں۔ یہ تعریف ہے پاکستانی معاشرے میں ایک اچھی بیوی کی۔
سوال اہم ہے ۔ کیا آپ ایک اچھی عورت ہیں؟ دنیا بھر میں 25 نومبر سے 10 دسمبر تک کے سولہ ایام کو صنفی تشدد کے خاتمہ کے حوالے سے ایک تحریک کے طور پر مختص کیا گیا ہے اور جب صنفی تشدد کی بات آئے تو عورت صدیوں سے پہلے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خواتین کے لیے سب سے خطرناک جگہ اُن کا گھر ہے۔ یو این کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں 85 ہزار خواتین کو مردوں نے دانستہ طور پر قتل کیا۔ ان 85 ہزار خواتین میں سے 60 فیصد خواتین اپنے ساتھی یا خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں ماری گئیں۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ تقریباً 140 خواتین شریک حیات یا خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں آج بھی باپ گول روٹی نا بنانے پر بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے جبکہ بھائی ، شوہر یا چاچے مامے اپنی وحشت کو غیرت کے نام پر قتل کا نام دے کر آج بھی سینہ تان کر معاشرے میں چلتے ہیں۔ قندیل بلوچ اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ جس نے زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنے کی ٹھانی تو گھر کی بھوک نے اسے قبول کیا مگر پھر ذاتی اختلافات کو غیرت کی چادر میں لپیٹ کر معاشرے کو یہ بتایا گیا کہ قندیل '' ایک اچھی عورت نہیں تھی۔‘‘
آپ ایک اچھی عورت ہیں جب تک آپ اس پر خوش ہیں جو آپ کو دیا جا رہا ہے۔ وہ تعلیم ہو ، اپنی زندگی کے فیصلہ لینے کا حق یو ، مرضی سے شادی کا حق ہو ، جائیداد میں حصہ لینے کا حق ہو ، بچے کی پیدائش کا حق ہو، اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق ہو، نوکری کرنے کا حق ہو یا پھر کھل کر جینے کا حق ہو ۔ لیکن ان تمام حقوق میں سے دینے والے یہ طے کرینگے کہ آپ کو کونسا حق ملے گا اور کتنا ملے گا۔ اگر آپ سر جھکائے تابعداری دکھائیں گی تو آپ کو ''ایک اچھی عورت‘‘ کا خطاب ملے گا۔
لیکن اگر آپ عورت مارچ میں جا کر ''میرا جسم ، میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگائیں گی تو یہ معاشرہ آپ پر بری عورت کا ٹیگ لگا دے گا۔ آپ عورت کی تعلیم اور اپنی تعلیم کے حق کے لیے نکلیں گی تو آپ کو بھی ملالہ یوسفزئی کی طرح اس معاشرے سے بغاوت کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا اور اس زمین کو آپ کے لیے تنگ کر دیا جائے گا۔ معاشی خودمختاری کے لیے گھر سے باہر ائیں گی تو یہی معاشرہ آپ کی کردارکشی بھی کرے گا اور آپ کو جنسی طور پر ہراساں بھی مگر پاکیزگی کے تمام ٹائٹل بہت آرام سے مرد کے ماتھے پر سجیں گے۔
پاکستان جیسے پدرشاہی معاشرے میں مرد اپنے گھر کی خواتین کی زندگیوں کو کنٹرول کرتے رہے ہیں اور عورت اسے ان کا حق سمجھتے ہوئے سر جھکاتی آ رہی ہے۔ خواتین کے حقوق کے خلاف مردوں کی مزاحمت مردوں کے ذہنی تعصب کے ساتھ ساتھ اس خطرےکو بھی پیدا کرتی ہے کہ یہ با اختیار خواتین اپنے حقوق کا تقاضہ کرکے پدرشاہی کی زنجیر توڑ کر سماج میں مردوں کی برابری کر سکتی ہیں اور یہی خوف مردوں کی جانب سے عورت مارچ پر تنقید کی صورت نمایا ہوتا ہے۔ لیکن آخر کب تک ؟ کب تک عورت کو ''اچھی عورت‘‘ کے میڈل کے لیے اپنے حقوق سلب کروانے پڑیں گے۔ کب تک بہنوں کی جائیدادیں بھائیوں کے قبضے میں صرف اس لیے رہیں گی تاکہ بہنوں کا میکہ سلامت رہے ؟
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 34 یہ کہتا ہے کہ ''قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیکن کیا خواتین کو پاکستان میں وہ موقع میسر ہیں ؟ پاکستان میں ایم بی بی ایس مکمل کرنی والی خواتین میں سے 50 فیصد ایسی ہیں جو نوکری نہیں کرتیں کیونکہ انہیں گھر بسانا ہوتا ہے اور گھر بسانے کے لیے عموماﹰ لڑکی کا نوکری نا کرنا پہلی شرط ہوتا ہے۔ پدرشاہی اس معاشرے میں عورت کے گرد توقعات، ذمہ داریوں اور عزتوں کے ایسے بوجھ لاد دیے گئے ہیں کہ عورت چاہ کر بھی چیخ نہیں پاتی، طاقت ہوتے ہوئے بھی رشتوں کی ان بیڑیوں کو توڑ نہیں پاتی کیونکہ وہ ''ایک اچھی عورت ہے۔‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔