1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتعالمی

کیا آپ بہت زیادہ امیر ہو سکتے ہیں؟

4 اکتوبر 2022

جب کوئی شخص ٹوئٹر خریدنے کے لیے 40 بلین ڈالر کی پیشکش کر سکتا ہو, امیر، امیر تر ہو رہے ہیں، تو فلسفیوں کا ایک گروپ سمجھتا ہے کہ دنیا کے نظام کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ اس کا ایک حل لِمِٹیرینزم کے نظریے کو سمجھا جا رہا ہے۔

Haufen Banknoten von Euro Währung
تصویر: Wolfgang Filser/Zoonar/picture alliance

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ زیادہ امیر نہیں ہو سکتے۔ لیکن دنیا میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے لوگوں کو یہ بات غلط دکھائی دینے لگی ہے۔ بعض لوگ واقعی بہت ہی زیادہ امیر ہیں۔

ایسے ماہرین معاشیات، فلسفیوں اور رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جو کئی صدیوں کے دوران دولت کی تقسیم نو کے معاملے  پر اپنے نظریات پیش کر چکے ہیں۔ معاشی مساوات اور اشتراک کے معاملے پر پورے کے پورے سیاسی نظام وضع ہو چکے ہیں۔

اکنامک لِمِٹیرینزم یا معاشی حد بندی ہے کیا؟

اکنامک لِمِٹیرینزم یا معاشی حد بندی کا تصور یہ ہے کہ کسی کو بھی بہت زیادہ امیر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تصور بہت زیادہ امیر لوگوں کے سبب نقصانات اور خطرات پر بحث کرتا ہے۔ عدم مساوات کے سوال پر بحث کرتے ہوئے یہ غربت کے مسائل اور غریبوں کی حالت بہتر کرنے کے معاملے کو نظر انداز کر دیتا ہے اور صرف بہت زیادہ ملکیت پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

اکنامک لِمِٹیرینزم یا معاشی حد بندی کے نظریے میں انگرِڈ روبینز کا اہم کردار ہے۔تصویر: Roland Pierik

کوئی فرد واحد زیادہ سے زیادہ کتنی دولت جمع کر سکتا ہے، یہ حد لگانا کوئی سزا تصور نہیں کیا جاتا۔ خیال یہ ہے کہ سماجی بہتری کے ذریعے معاشی نظام اور عوام میں ایک مثبت تبدیلی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے علاوہ 'ضرورت سے زیادہ دولت‘ زندگی میں ایک حد سے زیادہ بہتری کا سبب نہیں بنتی۔ زیادہ تر معاملات میں چند ملین ڈالر کافی ہوتے ہیں۔

لِمِٹیرینزم سوشلزم یا کمیونزم نہیں ہے۔ یہ دولت جمع کرنے، پرائیویٹ جائیداد کی ملکیت یا کسی حد تک سماجی عدم مساوات کو رد نہیں کرتا۔ تاہم اس کا تصور یہ ضرور ہے کہ بہت زیادہ ہونا بھی غیر ضروری ہے۔

ابھی تک اس تھیوری نے 'بہت زیادہ‘ کی اعداد کی شکل میں کوئی حد مقرر نہیں کی۔ لہٰذا ایسا کوئی ایک نکتہ نہیں ہے جہاں یہ آ کے کہے کہ یہ دولت ضرورت سے زائد ہے، مثلاﹰ 10 ملین ڈالر یا 150 ملین یا پھر دو بلین ڈالر۔

دنیا کا امیر ترین شخص، کون کون سی کمپنیوں کا مالک

01:45

This browser does not support the video element.

یہ تصور آیا کہاں سے؟

ایک ماہر تعلیم کا خاص طور پر معاشی حد بندی یا اکنامک لِمِٹیرینزم کے نظریے میں اہم کردار ہے، انگرِڈ روبینز Ingrid Robeyns، بیلجیم کی ایک نظریہ کار جو نیدرلینڈز کی اوتریشٹ یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ وہ وہاں شعبہ فلسفہ میں پڑھاتی ہیں۔  وہ محققہ ہیں اور سماجی مساوات، سیاسی فلسفہ اور اخلاقیات ان کے خاص مہارتیں ہیں۔

انہوں نے پہلی مرتبہ اکنامک لِمِٹیرینزم یا سماجی حد بندی کا نظریہ 2012ء میں ایک کانفرنس میں پیش کیا تھا۔ مگر اس نظریے پر ان کا اولین اکیڈمک پیپر چھپنے میں کچھ برس لگ گئے۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل اس معاملے پر مباحثوں میں شریک ہو رہی ہیں، ریسرچ پیپرز شائع کرا رہی ییں اور ایک کتاب لکھنے میں بھی مصروف ہیں۔ ان کے اس تصور پر دنیا بھر سے مختلف طرح کے ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔

جب کوئی شخص ٹوئٹر خریدنے کے لیے 40 بلین ڈالر کی پیشکش کر سکتا ہو, امیر، امیر تر ہو رہے ہیں، تو فلسفیوں کا ایک گروپ سمجھتا ہے کہ دنیا کے نظام کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ تصویر: EMMANUEL DUNAND/AFP

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انگرڈ روبینز کا کہنا تھا، ''یورپ میں، میرا تجربہ یہ ہے کہ عوام لِمِٹیرینزم سے منسلک بہت سے دلائل سے متفق ہے۔ لیکن امریکہ میں یہ ایک ایسا خیال ہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والے مباحثوں سے بہت دور ہے۔‘‘

روبینز مزید کہتی ہیں، ''روایتی امریکی سماج کا ایک حصہ امریکن ڈریم ہے، یعنی یہ تصور کہ ہر ایک کے پاس بہت زیادہ امیر بننے کا امکان موجود ہے، لیکن اگر کوئی بہت زیادہ محنت کرے تو۔‘‘

اس نظریے پر تنقید

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اکنامک لِمِٹیرینزم کا کچھ زیادہ استعمال نہیں ہو رہا لہٰذا کمپنیوں کو بھی اس تصور کا پابند بنایا جانا چاہیے۔ دوسرے فلسفی اور ماہرین معاشیات دولت کو محدود کرنے کے خیال کے ہی مخالف ہیں۔ وہ کمائے جانے والی یا ورثے میں ملنے والی دولت پر کوئی بھی اخلاقی حد مقرر کرنے کے خلاف ہیں۔ اصل میں دولت مند ہونے کا یہی امکان ہی ہے جس کی وجہ سے کاروباری حضرات خطرات مول لیتے ہیں، نئی چیزیں ایجاد ہوتی ہیں اور تبدیلی کا عمل آگے بڑھتا ہے۔

ساتھ ہی ان کی دلیل ہے کہ دولت کو محدود کر دینے سے سیاسی عدم مساوات کم نہیں ہو گی۔ دولت مندی کو ماپنا ویسے بھی ناممکن ہے، اس لیے ایک ترقی پسند ٹیکس نظام مساوات کا ہدف حاصل کرنے کا ایک بہتر راستہ ہے۔

سن 2200 کے امیر اور غریب کیسے ہوں گے؟

02:36

This browser does not support the video element.

پھر بھی یہ درست ہے کہ امیر، امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ فوربز میگزین کی طرف سے 2022ء میں جاری کی گئی ارب پتی افراد کی فہرست کے مطابق ایسے افراد کی تعداد 2,668 بنتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ 12.7 ٹریلین ڈالر کے مالک ہیں۔ گو گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ تعداد نسبتاﹰ کم ہے، جس کی وجہ عالمی بحران ہیں، پھر بھی 1000 ارب پتی ایسے ہیں جن کی دولت اس سے ایک برس کے مقابلے میں بڑھی۔

کیا دولت پر حد واقعی لگائی جا سکتی ہے؟

انگرڈ روبینز کی نظر میں دنیا کے حقیقی مسائل ان کے اس تصور پر عملدرآمد سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بہت زیادہ امیر ہونے کی بین الاقوامی تعریف پر متفق ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔ دوسری بات اگر ایک خاص رقم پر متفق ہو بھی جایا جائے، تو کسی کے پاس موجود ضرورت سے زائد رقم کو کیسے حاصل کیا جائے گا؟

روبینز کی دلیل البتہ یہ ہے کہ فلسفیوں کا کام سوال اٹھانا ہے نہ کہ ہیرے، جواہرات یا پرائیویٹ جیٹ ضبط کرنا۔ وہ کہتی ہیں، ''آئیڈیاز تاریخ کو تبدیل کر سکتے ہیں، کچھ کام کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔‘‘

ان کے تصورات کہیں غیر معروف ہو سکتے ہیں، مگر یہ کم از کم عدم مساوات کے بارے میں لوگوں میں سوچ تو بیدار کر رہے ہیں۔

انگرڈ روبینز کے بقول، ''میرا کام بطور فلسفی اور اسکالر اس طرح کے دلائل کو پیش کرنا ہے، مگر یہ عوام اور معیشت، سیاست اور مذہبی رہنماؤں کا کام ہے کہ ان کے حوالے سے اقدامات کریں اور اس طرح کی دنیا کو ایک حقیقت بنائیں۔

دولت مند افراد کی مہنگی ترین تفریحی کشتیاں

03:15

This browser does not support the video element.

ٹموتھی روکس (ا ب ا/ع ب)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں