کیا آپ سوشلسٹ ہیں؟ کیوبا کی سیاحت کے بعد پیدا ہونے والا سوال
26 اپریل 2019
اس سوال کا جواب سوچ کر بتانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ڈکشنری کے استعمال یا کسی دوست کو فون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب فوری طور پر ہاں یا نہیں میں دینا ضروری ہے۔
اشتہار
گزشتہ برس کیوبا کی سیاحت سے قبل اس مناسبت سے سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر کوئی گن پوائنٹ پر ہی پوچھ لے کہ ’تم سوشلسٹ ہو‘ تو کیا جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس دورے سے قبل ذہن میں سوشلزم کے بارے میں خوشگوار سوچ تھی کہ میں جس ملک میں جا رہی ہوں وہاں لوگوں کے پاس بہترین ہیلتھ کیئر سہولیات میسر ہوں گی، والدین کو بچے کی ولادت پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی بھی دی جاتی ہو گی اور ایسے ہی بہت سارے خیالات موجود تھے۔
کیوبا پہنچ کر حیرت سے دیکھا کہ ایک بوڑھی خاتون راشن (روزمرہ کی خوراک) حاصل کرنے والی کتاب کے ساتھ ایک مارکیٹ میں قطار میں کھڑی ہے، ایک اور جانب پانچ لوگ ایک ساحلی عمارت پر رنگ و روغن کرنے میں مصروف تھے۔ میں نے ایک عورت، جو ماں بھی تھی، اُس کے بچے کے لیے گیلے وائپس کا ایک پیکٹ دیا تو اُس کا چہرہ تشکر آمیز جذبات سے بھر گیا۔
کیوبا کے تقریباً سبھی شہروں کی کئی دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر یا پیٹنگز پر ’سوشلزم یا موت‘ کے الفاظ درج ہیں۔ یہ پینٹگز اور الفاظ بھی ایک اور حیرت کا باعث تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ اس ملک میں سوشلزم کے ساتھ تعلق میں گرم جوشی میں کمی کے علاوہ یہ کسی غبار سے ڈھکا ہوا محسوس ہوا۔ ایسے میں ذہن میں سابقہ سوویت یونین کی ریاست بھی ابھری جہاں جبر کا نظام رائج تھا او کسی حد تک جدید دور کا چین یا وینزویلا بھی ہو سکتے ہیں۔
اب گن پوائنٹ پر کوئی سوشلسٹ ہونے کے حوالے سے کیا جواب دے۔ اس مناسبت سے امریکی سیاستدان بیرنی سینڈرز سے پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ اس نظام میں حکومتی ملکیتی شمولیت کے بغیر پائیدار پیداوار کو سوشلزم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات جب میں نے اپنے کیوبا کے سیاحتی گائیڈ سے کہی تو وہ اپنے رَم کے گلاس کے ساتھ قہقہہ مار بیٹھا اور کہنے لگا کہ سویڈن ایک سوشلسٹ ملک نہیں ہے اور وہاں نجی کاروبار ہی سب کچھ ہے۔
کیوبا میں سوشلزم کی حکومتی تعریف کے مطابق سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ہر شے کی ملکیت مشترکہ ہے۔ ایسا بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ ایسے ممالک میں ابہام پایا جاتا ہے اور سیاسی و اقتصادی نظریات عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے ہیں۔ کہتے ہیں کہ فیمنزم (نسائیت) کی طرح سوشلزم بھی ایک بیج ہے اور آپ اسے پہن کر پھرتے ہیں لیکن یہ بھی اہم ہے کہ اس بیج کے ساتھ آپ کس مقام، جگہ یا ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔
یہاں جرمنی میں یہ ترکیب کسی حد تک اور رنگ میں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان گیرہارڈ شروئیڈر نے لیبر اصلاحات متعارف کرائی تھیں اور اس باعث ہزاروں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔ پھر قدامت پسند چانسلر انگیلا میرکل نے جنگ زدہ علاقوں کے لاکھوں متاثرین کو بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے ایک اور موقع دیا۔ میرکل کے اس پالیسی فیصلے پر سخت سوال بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈی لنکے کی سیاستدان ساہا ویگن کنیخٹ نے اٹھایا تھا۔
بظاہر یہ نظریاتی پیچیدگیاں ہیں، جو اس صورت حال کی عکاس ہیں کہ عالمگیریت اور ڈیجیٹل اقتصاد میں مسلسل افزائش ہو رہی ہے اور ان کی وجہ سے معاشرتی تبدیلیاں بہت تیزی سے جنم لے رہی ہیں۔ ان تیز رفتار تبدیلیوں سے کوئی سیاسی جماعت یا فرد واحد پہلے سے متعین کردہ نظریاتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے سے قاصر ہو سکتا ہے۔
کیٹ فرگوسن
جرمنی میں کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی یادگاریں
کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز دونوں کو بابائے سوشلزم کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جرمنی میں یہ دونوں شخصیات متنازعہ تصور کی جاتی ہیں تاہم پھر بھی مختلف جرمن شہروں میں ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB
چین سے ایک تحفہ
کارل مارکس کی پیدائش جرمن شہر ٹریئر میں ہوئی تھی اور آئندہ برس اُن کا دو سوواں یومِ پیدائش منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس موقع پر چین نے ٹریئر شہر کو مارکس کا 6.3 میٹر (بیس فٹ) سائز کا ایک مجسمہ بطور تحفہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ طویل بحث مباحثے کے بعد سٹی کونسل نے اس تحفے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لکڑی کے اس مجسمے (تصویر) کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ اصل مجسمہ کیسا ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
مارکس ایک تاریخی شخصیت
جرمن شہر ٹریئر میں 2013ء میں کارل مارکس کی ایک سو تیس ویں برسی منائی گئی تھی۔ تب جرمن فنکار اوٹمار ہوئرل کی جانب سے ٹریئر کے تاریخی مقام پورٹا نیگرا کے سامنے مارکس کے پانچ سو مجسمے نصب کیے گئے تھے، جو پلاسٹک سے بنے ہوئے تھے۔ ان مجسموں کے ذریعے اس فنکار کا مقصد یہ تھا کہ لوگ مارکس کی تاریخی شخصیت اور اُن کی شاہکار تصنیفات پر نئے سرے سے بحث مباحثہ شروع کریں۔
تصویر: Hannelore Foerster/Getty Images
سوچ میں ڈُوبے فریڈرش اینگلز
مارکس کے ساتھ ساتھ فریڈرش اینگلز کو بھی کمیونزم کا ایک بڑا فلسفی مانا جاتا ہے۔ اُن کا تانبے سے تیار کیا گیا چار میٹر سائز کا یہ مجسمہ اُن کے آبائی جرمن شہر وُوپرٹال میں نصب ہے۔ چینی حکومت نے ایک چینی فنکار کا بنایا ہوا یہ مجسمہ 2014ء میں وُوپرٹال شہر کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ اینگلز کا یہ مجسمہ سائز میں ٹریئر شہر میں کارل مارکس کے مجوزہ مجسمے سے چھوٹا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
روحانی بھائی
1848ء میں شائع ہونے والی تصنیف ’کمیونسٹ منشور‘ کارل مارکس اور فریڈرش اینگلز کی مشترکہ کاوِش تھی۔ یہ تصویر ان دونوں کے برلن میں نصب مجسموں کی ہے۔ سابقہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کے ایماء پر 1986ء میں تیار کردہ ان مجسموں کا مقصد بابائے کمیونزم تصور کیے جانے والے ان فلسفیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا تھا۔ نئے سرے سے نصب کردہ ان دونوں مجسموں کا رُخ اب مشرق کی بجائے مغرب کی جانب ہے۔
تصویر: AP
مارکس کا بہت بڑا مجسمہ
کارل مارکس کا ایک بہت بڑے سائز کا یہ مجسمہ مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں ہے۔ 1953ء سے لے کر 1990ء تک اس شہر کا نام ’کارل مارکس سٹی‘ ہوا کرتا تھا۔ تیرہ میٹر سائز کا یہ مجسمہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا مسجسمہ ہے۔ اس مجسمے کے پیچھے دیوار پر چار زبانوں جرمن، انگریزی، روسی اور فرانسیسی میں ’کیمونسٹ منشور‘ کا مشہور جملہ ’دنیا بھر کے مزدورو، متحد ہو جاؤ‘ درج ہے۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/Schoening
بسمارک کی بجائےمارکس
مشرقی جرمن شہر فرسٹن والڈے کی اس یادگاری تختی پر کسی زمانے میں جرمن سلطنت کے پہلے چانسلر اوٹو فان بسمارک کی شبیہ ہوا کرتی تھی۔ 1945ء میں اُن کی جگہ کارل مارکس کی شبیہ نصب کر دی گئی۔ دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے فوراً بعد تانبے کی یہ تختی چوری ہو گئی تھی۔ 2003ء میں کافی بحث مباحثے کے بعد بالآخر سٹی کونسل نے بسمارک کی بجائے مارکس ہی کی نئی تختی لگا دی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Pleul
ایک اور متنازعہ مجسمہ
یہ مجسمہ تیس سال تک مشرقی جرمن شہر لائپسگ میں یونیورسٹی کے مرکزی داخلی دروازے کے باہر نصب رہا۔ سابقہ کمیونسٹ مشرقی جرمن دور میں لائپسگ یونیورسٹی کارل مارکس یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ 2006ء میں تعمیر و مرمت کے دوران اس مجسمے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ دوبارہ اسے نصب نہ کیا جائے۔ بالآخر ایک وضاحتی تحریر کے ساتھ اسے یونیورسٹی کے ژاہن الے کیمپس کے باہر نصب کر دیا گیا۔