1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتشمالی امریکہ

کیا آپ نے دنیا کو کبھی کسی آٹسٹ انسان کی نظروں سے دیکھا ہے؟

2 اپریل 2022

آٹزم کے شکار افراد کو عموماﹰ دیگر انسانوں سے بالکل مختلف انسانی گروپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ اس لیے غلط ہے کہ آٹسٹ انسانوں میں بس چند ایسی مخصوص اور طے شدہ عمومی خصوصیات نہیں ہوتیں، جو ہر آٹسٹ میں پائی جاتی ہوں۔

 Autismus
زیادہ تر آٹسٹ افراد اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور معلومات کو اس طرح فلٹر کر کے نہیں سمجھ سکتے، جیسے کہ غیر آٹسٹ انسانتصویر: Uwe Zucchi/dpa/picture-alliance

آج دو اپریل ہفتے کا دن آٹزم کا عالمی دن ہے اور اس دن کی مناسبت سے ان غیر آٹسٹ انسانوں سے، جنہیں عرف عام میں 'نارمل‘ انسان کہا جاتا ہے، یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آیا انہوں نے کبھی دنیا کو کسی آٹسٹ کی نگاہوں سے دیکھنے کی کوئی کوشش کی ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک عام انسانی رویہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی فرد کی کسی مخصوص جسمانی یا ذہنی حالت کو اس کی معذوری قرار دے کر اکثر یوں دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے کہ وہ معذوری متعلقہ انسان کی پہچان بنا دی جاتی ہے۔ اس عمل میں معذوری کو آگے رکھا جاتا ہے اور انسان کی صلاحیت کو پیچھے، حالانکہ ہونا اس کے الٹ چاہیے۔

آٹزم کے شکار افراد پیدائشی آٹسٹ ہوتے ہیں

آٹزم ایک ایسی جسمانی اور ذہنی حالت کا نام ہے، جس میں کسی بھی متاثرہ فرد کی نشو ونما کا عمل گہرے اثرات کے حامل خلل کا شکار ہو کر معمول سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن کوئی انسان پیدائش کے بعد اپنے حالات زندگی کی وجہ سے آٹسٹ نہیں بنتا بلکہ اس کی یہ حالت ہمیشہ پیدائشی ہوتی ہے۔ اپنی اس حالت سے خود آٹسٹ انسان بھی واقف ہوتے ہیں اور جب وہ اپنی اس حالت کو بیان کرتے ہیں تو بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

معذور بیٹوں کا بیمے کی رقم کے لیے قتل، باپ کو دو سو بارہ سال قید

رِکی سیہرر ایک ایسی 44 سالہ خاتون ہیں، جو آٹسٹ ہیں۔ وہ خود بھی یہ طبی حقیقت جانتی ہیں اور اس کی وضاحت بھی کرتی ہیں کہ آٹسٹ انسانوں کا دماغ غیر آٹسٹ انسانوں کے دماغ کے مقابلے میں مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''میری رائے میں تو ساری بات صرف اتنی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد رونما ہونے والے حالات و واقعات کا ادراک کیسے کرتے ہیں اور کوئی آٹسٹ انسان انہی واقعات کو کیسے دیکھتا یا فلٹر کرتا ہے۔‘‘

آٹسٹ غیر آٹسٹ انسانوں سے مختلف کیسے؟

زیادہ تر آٹسٹ افراد اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات کو اس طرح فلٹر کر کے نہیں سمجھ سکتے، جیسے کہ غیر آٹسٹ انسان۔ کسی عام انسان کے دماغ میں ہر ایک سیکنڈ میں تقریباﹰ 11 ملین حسیاتی شبیہات یا تاثرات اپنی جگہ بناتے ہیں۔ ان میں سے ہم صرف 40 سینسری امیجز کو ہی پوری طرح سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

بہت سے آٹسٹ انسانوں کے لیے بہت زیادہ شور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے، جو ان کے لیے شدید ذہنی دباؤ کی وجہ بنتا ہےتصویر: Markus Scholz/picture alliance

عام انسان اپنی حسیات کے ذریعے جو کچھ بھی محسوس کرتے ہیں، وہ پورے کا پورا ہی ادراک اور افہام کے عمل کے لیے دماغ کو نہیں بھیجا جاتا۔ اس لیے کہ انسانی دماغ ایسا تو بنایا ہی نہیں گیا کہ جو کچھ بھی روزمرہ کی زندگی میں دیکھا، سنا یا محسوس کیا جائے، یا جو بھی معلومات حاصل ہوں، وہ سب کی سب دماغ میں علیحدہ علیحدہ کر کے باقاعدہ پروسیس کی جائیں۔

آٹسٹ لوگ اچھے ملازمین ہو سکتے ہیں

ہر انسان کا دماغ اسے ملنے والی معلومات کو چھلنی کرتا ہے۔ آٹسٹ انسان، مثلاﹰ رِکی سیہرر، بھی یہی کرتے ہیں، مگر آٹزم کے باعث اپنے طریقے سے۔ وہ کہتی ہیں، ''میں جو کچھ دیکھتی، سنتی یا محسوس کرتی ہوں، وہ اپنی مکمل حالت میں مجھ تک پہنچتا ہے۔ مجھے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے خود کو مطمئن رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ایسی بہت سی معلومات اور ان کے عمل انگیز اثرات کا مطلب ہوتا ہے مستقل ذہنی دباؤ۔‘‘

کسی بھی عمل یا احساس کے 'بہت زیادہ‘ سے بچنے کی کوشش

آٹسٹ انسان اپنے دماغ پر اثر انداز ہونے اور بے چین یا مشتعل کر دینے والے اسباب پر مختلف ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ جب ان کے لیے کوئی بھی صورت حال بہت زیادہ ذہنی دباؤ کا سبب بننے لگے، تو وہ اس سے نکلنے اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے کسی بھی عمل، احساس یا تجربے کا 'بہت زیادہ‘ ہو جانا باعث تکلیف ہوتا ہے۔

آٹزم کے شکار افراد کے ليے نئی ايپليکيشن

اسی 'بہت زیادہ‘ عمل یا تجربے کی ایک مثال روشنی بھی ہے۔ آٹسٹ انسانوں کو بہت تیز روشنی بے چین اور مشتعل کر دیتی ہے۔  رِکی سیہرر اس کا حل یہ نکالتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر جانتے ہوئے روشنی کے ساتھ براہ راست بصری رابطے سے بچنے کے لیے دھوپ کا چشمہ لگا لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں جب گاڑی میں ہوتی ہوں، تو گاڑی میں لگا دھوپ سے بچاؤ کا فولڈنگ کور اپنی آنکھوں کے آگے کر لیتی ہوں۔‘‘

دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا

آٹسٹ انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے۔ ایسا ہوتا ہے مگر ہر آٹسٹ کے ساتھ نہیں۔ ایسے کچھ انسان دوسروں کے ساتھ نظریں ملانے سے کتراتے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بات کرتے ہوئے دوسروں کو اتنی توجہ سے دیکھتے ہیں کہ جیسے انہیں گھور رہے ہوں۔ تاہم ان کا یہ تقریباﹰ گھورنا بھی دوسرے انسانوں کے گھورنے کے عمل سے کچھ مختلف ہوتا ہے۔

شور کے حوالے سے انتہائی حساس

ہر کوئی نہیں لیکن بہت سے آٹسٹ انسانوں کے لیے بہت زیادہ شور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ بہت اونچی اور شور کے زمرے میں آنے والی آوازوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے دماغ پر پڑنے والے بہت زیادہ بوجھ سے بچنے کے لیے شور سے بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں۔

آٹسٹ انسان کسی بہت پرسکون ماحول میں بھی جذباتی طور پر بہت بے چین اور مشتعل ہو سکتے ہیںتصویر: LIANEM/Zoonar/picture alliance

ایک اہم بات یہ بھی کہ اگر کوئی ان سے اونچی آواز میں بات کر رہا ہو اور پس منظر میں دوسری آوازوں کا شور بھی زیادہ ہو، تو ان کے لیے اپنے شریک گفتگو انسان کی آواز اور پس منظر سے آنے والے شور میں تفریق کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ آوازوں کو ذہنی طور پر فلٹر نہ کر سکنے کی وجہ سے چڑچڑے اور پھر مشتعل ہو جاتے ہیں کیونکہ سب آوازوں کا مل کر 'بہت زیادہ‘ ہو جانا ان کے ذہن میں انتشار پیدا کر دیتا ہے۔

رِکی سیہرر کہتی ہیں کہ بہت زیادہ شور سے تحفظ کا ایک طریقہ ہیڈ فون کا استعمال بھی ہے۔ اس سے پہلے کہ کئی طرح کا شور آپ کو بے چین کرے، آپ اس شور کو راستے ہی میں روک دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہلکی آواز میں کوئی موسیقی لگا کر اسے ہیڈ فون کے ذریعے سننے سے بھی شور کا مقابلہ ایک مختلف طرح کے اور یکساں نوعیت کے شور کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے۔

آٹسٹ انسانوں کے جذبات

آٹسٹ انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت جذباتی ہوتے ہیں اور ان میں چیزوں کو محسوس کرنے کا عمل بہت شدید ہوتا ہے۔ رِکی سیہرر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ''آٹسٹ انسانوں میں ان کے اپنے جذبات بھی دوسروں کی نسبت کم  نہیں بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کے لیے بہت زیادہ محسوس کرنے کا عمل بذات خود بے چینی اور اشتعال کی وجہ بن سکتا ہے۔ لیکن کئی ایسے آٹسٹ افراد بھی ہوتے ہیں، جو یہ بھی صحیح طرح نہیں جانتے ہوتے کہ وہ کیا محسوس کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے جذبات اور محسوسات کو سمجھ کر ان کی چھانٹی اور پھر ان کا ادراک کر سکیں۔‘‘

آٹسٹ افراد اکثر خود کو دوسروں سے الگ تھلگ ہی رکھتے ہیںتصویر: U. Grabowsky/photothek/picture alliance

رِکی سیہرر کے الفاظ میں، ''آٹسٹ انسان تو زیادہ تر خود کو انہی کوششوں میں مصروف رکھتے ہیں کہ کس طرح ان کا رویہ، اٹھنا بیٹھنا اور سماجی برتاؤ بھی ویسے ہی ہوں، جیسے کہ غیر آٹسٹ افراد کے۔ ان کی بہت زیادہ توانائی تو یہی کوششیں لے جاتی ہیں۔‘‘

ہر کسی کے لیے یکساں احترام اور توجہ

آج دو اپریل آٹزم کے عالمی دن کے حوالے سے اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ آٹسٹ انسانوں کو کم تر، بیمار یا معذور سمجھنے کے بجائے انہی وہی عزت، احترام اور توجہ دی جائے، جو ان کا حق ہے اور جو بطور حق دوسرے غیر آٹسٹ انسانوں کے حق سے مختلف یا کم نہیں ہے۔

ایک اچھا اور مؤثر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آٹزم کو سمجھنے کے لیے غیر آٹسٹ انسان اپنے ارد گرد کی دنیا کو کبھی کبھی آٹسٹ انسانوں کی نظروں سے دیکھنے کی بھی کوشش کریں۔ اس لیے کہ اپنی نظروں سے تو دنیا کو ہر انسان دیکھتا ہی ہے۔ مختلف دنیا تو دوسروں کی نظروں سے ہی نظر آتی ہے۔

گُودرُون ہائزے (م م / ع آ)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں