1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 ’کیا اب ہر شخص کو اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرنا ہوگا؟ ‘

بینش جاوید
1 نومبر 2018

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ اور آسیہ بی بی کا کیس سنانے والے بینچ کے تمام ارکان پیغمبر اسلام سے محبت کرنے والے ہیں لیکن وہ صرف مسلمانوں کے جج نہیں ہیں۔

Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

پاکستان کے چیف جسٹس نے جمعرات کو ایک دوسرے کیس کی سماعت کے دوران آسیہ بی بی کیس کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ اگر کسی کے خلاف ثبوت ہی نہیں ہے تو ہم کسی کو سزا کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘

آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سزا کے خلاف آسیہ بی بی نے درخواست دائر کر رکھی تھی۔ اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے گزشتہ روز آسیہ بی بی کی سزا منسوخ کر دی تھی۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد پاکستان میں ’تحریک لبیک پاکستان‘ تنظیم اور دیگر  مذہبی عناصر نے بھر پور احتجاج کیا اور پاکستان کی فوج اور ججوں کے خلاف نعرے لگائے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ شب قوم سے خطاب کے دوران ایسے عناصر کی مذمت کی اور کہا کہ ریاست حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو برداشت نہیں کرے گی۔

اس کیس کے حوالے سے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا،’’ ہم نے اپنے فیصلے کا آغاز پہلے کلمے سے کیا۔ ہم پیغمبر اسلام سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے جان کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔‘‘ چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ میں شامل جج اکثر درود شریف کا ورد کر رہے ہوتے ہیں۔

اس دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اب ہر شخص کو اپنے ایمان کا ثبوت پیش کرنا ہوگا؟

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں