1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل حماس جنگ: کیا ایران اور سعودی عرب قریب آ رہے ہیں؟

1 دسمبر 2023

اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ نے جہاں عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی ہلچل مچا دی ہے وہاں خطے کے دو حریف ملک سعودی عرب اور ایران کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی امید دکھائی دے رہی ہے۔ یہ پیش رفت کس حد تک پائیدار ہو سکتی ہے؟

Saudi-Arabien Riad 2023 | Treffen zwischen Kronprinz Mohammed bin Salman und Präsident Ebrahim Raisi bei OIC-Gipfel
تصویر: Iran's Presidency/WANA Handout via REUTERS

حال ہی میں سعودی اور ایرانی اعلیٰ دفاعی اہلکاروں کی بذریعہ ٹیلی فون ایک انتہائی غیر عمومی گفتگو ہوئی۔ دوطرفہ دفاعی معاملات کے بارے میں مذاکرت ہوئے اور  عسکری تعاون پر زور دیا گیا۔ اُدھر ایران کی ایک نیم سرکاری ایرانی اسٹوڈنٹس نیوز ایجنسی نے دونوں حریف ممالک کے مابین ہونے والی اس بات چیت کی تفصیلات بتائے بغیر رپورٹ کیا کہ سعودی  وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری کو بتایا کہ وہ ''دونوں ممالک کی مسلح افواج کے تعاون کی سطح میں اضافے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘

ایران اور سعودی عرب دیرینہ حریف ممالک ہیں۔ عشروں سے ان دونوں مسلم ریاستوں کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ عالمی اور علاقائی سطح پر دونوں کی سیاست ہمیشہ مختلف سمت میں رہی ہے۔ اسلامی دنیا اور خاص طور پر عرب اور خلیجی علاقے اور مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ اور مسابقت کی جنگ تہران اور ریاض حکومتوں کے درمیان رسہ کشی کا سبب رہی ہے۔

'گراؤنڈ بریکنگ‘ معاہدہ

واشنگٹن میں قائم ایک مشہور تھنک ٹینک ''مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘‘ کی طرف سے کچھ عرصے قبل ایک جامع تجزیہ شائع ہوا۔ اس میں ماہرین اور تجزیہ  نگاروں نے مارچ 2023 ء میں ایران اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے ایک معاہدے کو ''گراؤنڈ بریکنگ‘‘ قرار دیا جو تہران اور ریاض  کے دوطرفہ تعلقات کو ''معمول پر لانے‘‘ کے لیے عمل میں لایا گیا۔ تجزیہ کاروں نے اس معاہدے کو ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے کو نئی شکل دینے کا سبب قرار دیا۔ اس معاہدے کو دونوں ممالک کے درمیان '' ڈی سکیوریٹائزیشن‘‘ اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے راہ ہموار کرنے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا گیا۔ اس سے اطراف میں مثبت احساسات و جذبات پیدا ہوئے اور دو طرفہ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے نت نئی سوچ نےجنم لیا۔ 

ایران اور سعودی عرب دیرینہ حریف ممالک رہے ہیںتصویر: Saudi Press Agency/Handout via REUTERS

معاہدے کی پائیداری پر سوال

  ماہرین اور تجزیہ کاروں کا  کہنا ہے کہ ایران اور سعودیعرب کے مابین سکیورٹی کے بہت سے اہم مسائل ہنوز حل طلب ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے معاہدے کی طویل مدتی پائیداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ کیا دونوں فریقوں کی سکیورٹی پالیسیوں میں مسلسل چیلنجز کے پیش نظر صرف غیر سکیورٹی تعاون ہی معمول پر آنے کی پائیداری کو یقینی بنا سکتا ہے۔ سکیورٹی تناؤ کو کم کرنے کے لیے کون سے اقدامات اور طریقہ کار متعارف کرائے جائیں؟

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں ایران کا کردار

02:59

This browser does not support the video element.

اسرائیل اور حماس جنگ کے اثرات

اسرائیل اور حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے ایران اور سعودی عرب کے مابین رابطوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی گیارہ نومبر کو ریاض میں عرب لیگ کی ایک ایمرجنسی میٹنگ کے دوران ہونے والی ملاقات کو بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔ گرچہ یہ ملاقات فلسطینیوں کی حمایت کے اظہار کے لیے منعقدہ عرب لیگ سمٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی۔

ایران کی اقتصادی صورتحال کا عمل دخل

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ عشروں سے اقتصادی پابندیوں اور ہچکولے کھاتی تیل کی تجارتی منڈی نے ایران کوغربت میں دھکیل دیا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 10 ملین ایرانی شہری اقتصادی پابندیوں، ناقص اقتصادی نظام اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے غربت کے دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ یہ جائزہ معروف نیوز ایجنسی بلومبرگ نے شائع کیا۔ آن لائن شائع ہونے والی یہ رپورٹ 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد 85 ملین آبادی والے ملک ایران میں غربت سے متعلق  اس ادارے کا پہلا سرکاری جائزہ ہے۔ اس میں ایک ایسی معیشت کی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں 2020ء  تک کی دہائی میں عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ بلومبرگ کے تجزیے کے مطابق ایران کے ان حالات میں امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی معاشی بدحالی میں اضافے کی  وجوہات میں وہاں خواتین پر لگی پابندیوں اور کووڈ انیس وبائی امراض دونوں کا بھی اہم کردار ہے۔

گیارہ نومبر کو ایرانی صدر کا ریاض میں استقبالتصویر: Iran's Presidency/WANA/REUTERS

ایران سعودی عرب تعلقات کا انحصار

ریاض اور تہران کے مابین سیاسی اور سفارتی تعلقات کی بحالی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ایسے میں دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کو ایک نازک اور محدود پیرائے میں دیکھا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اور بین الاقوامی امور پر کام کرنے والے متعدد تھنک ٹینکس سے وابستہ  تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب دونوں کے پاس ''سکیورٹی خدشات‘‘ کو کم کرنے کے لیے بہت محدود امکانات موجود ہیں اور یہی خدشات دراصل ہمیشہ سے ان دونوں کے مابین کشیدگی کی اصل وجہ رہے ہیں اور مستقبل میں بھی جب فریقین کسی پائیدار، طویل مدتی اور ایسے جامع میکنیزم  تک نہیں پہنچ سکتے جو ان کے دیرینہ سکیورٹی خدشات کو دور کر سکیں، طویل مدتی اور پائیدار معاہدہ طے نہیں ہو سکتا۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ''مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ‘‘ نے اپنے ایک تجزیے میں اس امر پر زور دیا کہ سعودی عرب اورایران کو ایک اہم نقطے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس انسٹیٹوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق،'' دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کو غیر مسلح کرنے یا ایک دوسرے سے فوجی سکیورٹی کی حکمت عملیوں میں اہم تبدیلیاں کرنے کے مطالبات کی بجائے طرز عمل کے نئے اصول وضع کرنے پر مرکوز رکھیں۔ اس کے لیے ایک نئی قانونی بنیاد بنانے کی ضرورت ہے جو معاہدے کے طویل مدتی باہمی نفاذ کی ضمانت دے سکے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ریاض اور تہران کو اپنے مستقبل کے سکیورٹی تعلقات کی بنیاد کے طور پر ایک جامع 'عدم جارحیت‘  کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ کسی بھی بغاوت یا فوجی جارحیت کو روکنا اور بحران کی صورت میں ایک 'ڈی اسکیلٹری میکانزم‘  بنانے پر توجہ دینا ایران اور سعودی عرب دونوں کے لیے ناگزیر ہے۔

کشور مصطفیٰ/ ع آ

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں