پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات کے دوران دوستی اور تعاون کے ایک نئے باب کے آغاز کا اعادہ کیا گیا جس کی بنیاد باہمی احترام اور ہم آہنگی پر ہو۔
اشتہار
تاہم ناقدین کے خیال میں اس دورے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام آباد افغان طالبان اور افغان حکومت کے براہ راست مذاکرات میں مدد کرے، جو ان کے خیال میں پورا نہیں ہوگا۔
افغان صدر جمعرات 27 جون کو دوروزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تھے، جہاں پاکستانی مشیر تجارت رزاق داؤد نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور عمران خان سے ملاقاتیں کیں اور اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سے بھی خطاب کیا۔
پاکستان کے مخلتف ممالک سے تعلقات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ کسی سربراہ مملکت کا استقبال کس طرح کیا گیا ہے۔ حال ہی میں قطر کے امیر اور سعودی ولی عہد کا استقبال خود وزیرِ اعظم عمران خان نے کیا۔ ناقدین کے خیال میں استقبال کا یہ طریقہ بھی اسلام آباد کی ترجیحات کا عکاس ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کی خیال میں اشرف غنی بنیادی طور پر یہ خواہش لے کر آئے تھے کہ اسلام آباد ان کی طالبان سے براہ راست بات چیت کرانے میں مدد کرے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکڑ ظفر نواز جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان افغان حکومت کی یہ خواہش پوری نہیں کر پائے گا: ''بظاہر ان کے دورے کا مقصد یہ ہی ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ کابل حکومت کی براہ راست بات چیت کرا دے۔ پاکستان کوشش کرے گا کہ ایسا ہو لیکن یہ کوشش ثمر آور نہیں ہوگی کیونکہ طالبان کابل انتظامیہ سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی عہدیداران یہ توقع کر رہے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے جلد ہی کوئی فارمولہ طے پا جائے گا۔ تاہم اس فارمولے کا ایک اہم جزو افغان حکومت کے طالبان سے براہ راست مذاکرات ہیں۔ افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی ڈاکٹر جسپال کی اس رائے سے متفق ہیں کہ براہ راست مذاکرات ممکن نہیں ہیں: ''اشرف غنی کی یہ خواہش ہے اور اس دورے کا ایک اہم مقصد بھی کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات میں پاکستان ان کی مدد کرے۔ امریکا بھی پاکستان سے یہ کئی بار کہہ چکا ہے لیکن طالبان کہتے ہیں کہ ان کی جنگ کا مقصد امریکا کو پہلے نکالنا ہے۔ پھر اشرف غنی انتخابات میں جارہے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ وہ جیتیں گے یا نہیں۔ تو پاکستان ان کی ایسے موقع پر کیوں مدد کرے گا؟ میرے خیال میں موجودہ حالات میں تو پاکستان براہ راست مذاکرات نہیں کرا سکتا۔ اگر پاکستان نے بہت زور دیا تو ان کے افغان طالبان سے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔‘‘
تاہم کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اپنی روایتی افغان پالیسی کو خیر باد کہہ رہا ہے اور وہ افغان پالیسی میں امریکا اور خطے کے دوسرے ممالک کی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں لا رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا ہے اور وہ افغان حکومت سے براہ راست بات چیت بھی کرائے گا۔ معروف تجزیہ نگار اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر ضیا الدین کے خیال میں پاکستان نے افغانستان کے مسئلے پر مغرب اور امریکا کی ترجیحات کو تسلیم کر لیا ہے: ''ہماری پالیسی یہ تھی کہ کابل میں بھارت مخالف حکومت ہو اور طالبان اس حکومت میں سب سے اہم ہوں لیکن اب پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ وہاں طالبان کی حکومت نہیں چاہتا بلکہ طالبان آنے والی حکومت میں ایک جونیئر پارٹنر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اسٹریٹیجک گہرائی والی پالیسی بھی ترک کر دی ہے۔ اب اشرف غنی کے دورے کے بعد ہم بھارت کو بھی ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے راستہ دیں گے اور افغانستان کو بھی بھارت سے تجارت کے لیے راستہ دیں گے۔ پاکستان امریکی خواہشات کو مان رہا ہے۔ اسی لیے چار سال میں پہلی بار امریکی صدر نے کسی پاکستانی سربراہ حکومت کو امریکا آنے کی دعوت دی ہے۔ اور اگر اس میں آرمی چیف بھی جاتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی اس تبدیل شدہ پالیسی کے پیچھے ہیں۔‘‘
ضیا الدیں کے بقول پاکستان کی طرف سے ملا بردار کو رہا کیا جانا اور ان کو مذاکرات کا حصہ بنانا اس بات کا غماز ہے کہ ہم نے امریکی مطالبات مان لیے ہیں: ''ہم نے کب سے برادر کو گرفتار کیا ہوا تھا لیکن ہم اسے امریکا کے حوالے نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی اسے بات چیت کرنے دے رہے تھے۔ اب اگر وہ بات چیت میں اہم کردار اداکر رہا ہے تو یہ ہماری تبدیل شدہ پالیسی کا عکاس ہے۔ امریکا اب خطے میں جڑت چاہتا ہے اور اب ہم اس جڑت کے لیے بھی کام کریں گے۔ میرے خیال میں اس دورے سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہوں گے کیونکہ امریکا اب ہماری مانیٹرنگ کرے گا۔‘‘
پاکستان میں یہ افواہیں بھی گرم رہیں کہ افغان صدر نے اپنے لیکچر میں پی ٹی ایم اور فاٹا کے حوالے سے بھی بات کی ہے لیکن افغان صدر کے لیکچر میں موجود دو افراد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ایسی کوئی بات کی ہے۔ جب ڈوئچے ویلے نے اس سلسلے میں افغان سفارت خانے سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ افغان سفیر اور ان کا عملہ صدر غنی کی تقریبات کی وجہ سے مصروف ہیں۔ افغان سفارت خانے کی طرف سے ڈی ڈبلیو کے تحریری سوالات کے بھی جوابات نہیں دیے گئے۔
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔