1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا امداد پاکستانی سیلاب متاثرین تک پہنچ رہی ہے؟

8 ستمبر 2022

سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اقوام متحدہ، بین الاقوامی اداروں اور متعدد ممالک نے کئی ملین ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ امداد سیلاب متاثرین تک پہنچ پائے گی یا اسے کیسے تقسیم کیا جا رہا ہے؟

Pakistan | Krise durch Überschwemmungen
تصویر: Akram Shahid/AFP

پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلابوں سے بڑے پیمانے پر رونما ہونے والے  انسانی المیے کے ساتھ ساتھ پہلے ہی اقتصادی مشکلات کے شکار ملک کو  تقریباﹰ 10 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوا ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد اور بحالی کے کاموں کے لیے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی تنظیموں، مالیاتی اداروں اور ممالک نے امداد مہیا کرنے کے وعدے کیے ہیں۔

 پاکستانی وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی طرف سے اعلان کردہ160 ملین ڈالر کی امداد کا 40 فیصد حصہ مختلف ممالک کی طرف سے امدادی اشیاء کی صورت میں موصول ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی بینک کی طرف سے 350 ملین ڈالر کی امداد بھی مل چکی ہے۔

غیر ملکی امداد کس طرح تقسیم کی جا رہی ہے؟

حکومت نے سیلاب متاثرین کے لیے 80 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ اس رقم میں سے ہر خاندان کو غربت کے خاتمے کی اسکیم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 25 ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ نقد امداد سرکاری اداروں میں پہلے سے رجسٹرڈ مستحقین کے بینک کھاتوں میں براہ راست منتقل کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ میں امداد کا منتظر سیلاب سے متاثرہ شخصتصویر: Fayaz Aziz/REUTERS

بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سے تعلق رکھنے والے محمد یونس کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی امداد سیلاب متاثرین میں تقسیم کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اس سرکاری اہلکار نے کہا، ''غیر ملکی حکومتوں کی امداد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے۔ این ڈی ایم اے اسے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کو پہنچاتا ہے، جو اسے ضلعی انتظامیہ کو بھیجتے ہیں، جہاں سے اس امداد کو  آگے مزید قصبوں اور دیگر انتظامی اکائیوں کو بھجوایا جاتا ہے۔ ‘‘

محد یونس کا یہ دعویٰ بھی  ہے کہ مقامی انتظامیہ کے پاس متاثرہ افرادکا ریکارڈ ہے اور امداد دینے سے پہلے متاثرہ شخص کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کر کے اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ 

 آئی این جی اوز کی معاونت

 محمد یونس اور ماضی میں آفات سے نمٹنے والے اداروں کے لیے کام کرنے والے متعدد دیگر افراد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بین الاقوامی آئی این جی اوز امداد براہ راست حکومت کے حوالے نہیں کرتی ہیں۔ محمد  یونس کے مطابق ، '' آئی این جی اوز کے اپنے مقامی شراکت دار ہیں یا وہ اشتہارات کے ذریعے ان کی تلاش کرتے ہیں،  ایک نمائندہ اپنے مقامی پارٹنرز کے ساتھ امداد کی تقسیم کے عمل میں شامل ہوتا ہے۔ غیرملکی این جی اوز کا اپنا بجٹ ہوتا ہے، وہ نقصانات اور ان کو پورا کرنے کے لیے ضروریات کے بارے میں اپنے جائزے لیتے ہیں۔ وہ اپنے امدادی علاقوں کا انتخاب بھی خود کرتے ہیں اور پھر حکومت کی اجازت کے بعد وہاں کام کرتے ہیں۔‘‘

مقامی امداد

مقامی این جی اوز لوگوں سے عطیات جمع کرتی ہیں، اپنا بجٹ بناتی ہیں، نقصانات اور ضروریات کا جائزہ لیتی ہیں اور اپنے رضاکاروں کو امدادی سامان کی فراہمی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایدھی، الخدمت اور متعدد دیگر مقامی این جی اوز اس وقت متاثرین کی مدد کے لئے میدان میں ہیں۔

آنے والے اداس دن

سیلا ب سے متاثرہ کچھ علاقوں میں اگرچہ پانی کم ہو رہا ہے لیکن وہاں عوام کو درپش مشکلات میں کمی کے کوئی آثار نہیں۔ انہیں وبائی بیماریوں نے پریشان کر رکھا ہے۔ ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم الخدمت کا اندازہ ہے کہ کم از کم پچاس لاکھ افراد کو مختلف بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے۔

 یونیسیف کو خدشہ ہے کہ 30 لاکھ سے زائد بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، غذائی قلت اور سیلابی پانی میں ڈوبنےکے خطرات کا سامنا ہے۔ یونیسف نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے 37 ملین ڈالر امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔ یونیسیف کے بچوں کو درپیش ماحولیاتی خطرے کے انڈیکس  میں پاکستان کا 163 ممالک میں سے  14واں نمبر ہے۔

سیلاب سے متاثرہ جن علاقوں میں پانی کم ہو رہا ہے وہاں وبائی امراض پھوٹ رہےہیں تصویر: Amer Hussain/REUTERS

 اس عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ سیلابوں نے کم از کم 18 ہزار اسکولوں کو نقصان پہنچایا ہے یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یونیسف کے اندازوں کے مطابق اس قدرتی آفت نے16 ملین بچوں پر بھی اثر ڈالا، جن میں سے3.4 ملین کو امداد کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق صحت کی تقریباﹰ 900 سہولیات کو نقصان پہنچا، جن میں سے 180 مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں پانی کے 30 فیصد نظام کو نقصان پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے اور لوگ کھلے آسمان تلے رفع حاجت کر رہے ہیں اور غیر محفوظ پانی پی رہے ہیں۔

امداد کہاں سے آئے گی؟

حکومتی اتحاد میں شامل جماعت کے ایک رکن محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اسلام آبادحکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں، مسلم ممالک، این جی اوز اور پاکستانی عوام سے امداد ملنے کی امید ہے۔  لیکن ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ اتنی بڑی رقم حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گندم، کپاس، دال، گنے، پیاز اور دیگر فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا،''عطیہ دہندگان کو خود بھی چیلنجز کا سامنا ہے اور پاکستان کو ان سے زیادہ امداد ملنے کا امکان نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے غیر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتیوں بشمول غیر جنگی دفاعی اخراجات، پٹرول کی راشننگ اور غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا کر متاثرین کی بحالی کے لیے رقم بچائی جا سکتی ہے‘‘۔

ایس خان (ش ر، ا ا)

پاکستان میں بارشوں سے تاریخی ورثہ بھی متاثر

04:21

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں