امریکا میں اگلے برس کے صدارتی انتخابات کے لیے انتخابی مہم ابھی پارٹیوں کے اندر جاری ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ریاستوں میں پارٹی انتخابات کا سلسلہ اگلے برس کے اوائل میں شروع ہو گا۔
اشتہار
امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن کا امیدوار بننے والے دس امیدواروں کی فہرست میں ایک نام پیٹ بوٹے جج کا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ہم جنس پسند ہیں اور انہوں نے ایک مرد چیسٹن بوٹے جج سے شادی بھی رچا رکھی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے صدارتی امیدوار بننے کے اعلان کے بعد سے یہ بحث شروع ہے کہ کیا امریکی قوم اس کے لیے تیار ہے کہ کوئی ہم جنس پسند اُن کے ملک امریکا کا صدر بن جائے۔ سینتیس سالہ پیٹ بوٹے جج کی اہلیت کو انڈیانا ریاست کے شہر ساؤتھ بینڈ کے میئر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بطور میئرانہوں نے اس شہر میں عوامی مقبولیت حاصل کی اور شہری ترقی کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھیں، جنہیں سراہا بھی گیا۔ اُن کے پروفائل کے تناظر میں ان کے صدارتی امیدوار بننے کے حوالے سے عام امریکی شہریوں میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی ہے کہ آیا ایک مخصوص جنسی رویے (ہم جنس پسندی) کا حامل شخص امریکا کے سب سے اہم منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
آئیووا ریاست میں منعقد کی جانے والی ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلے داخلی الیکشن پر نظریں ابھی سے جم چکی ہیں حالانکہ ابھی اس میں چار مہینے سے زائد کا عرصہ باقی ہے۔ اس ریاست میں پیٹ بوٹے جج نے اپنی بھرپور مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔
آئیووا میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کی مہم کے منتظمین میں شامل پال ٹوز کا کہنا ہے کہ دنیا اس صورت حال پر یقینی طور نگاہیں جمائے ہوئے ہے اور کامیابی کی صورت میں یہ پیغام جائے گا کہ رویے اہم نہیں ہوتے بلکہ لوگ جس کو پسند کریں گے وہی امریکا کا صدر ہو گا۔
جمعہ بیس ستمبر کو سیڈار ریپڈز نامی علاقے میں منعقدہ ایل جی بی ٹی کیو (LGBTQ) فورم میں تقریر کرتے ہوئے پیٹ بوٹے جج نے کہا کہ بطور ہم جنس پسند ہونے کے وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اُن کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور وہ اس جنسی رویے کی بدولت ہی اس ملک کے ساتھ ایک زوردار تعلق قائم کر سکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
آئیووا ریاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کے مختلف دس امیدواروں نے جماعتی انتخابات جیتنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس ریاست میں پہلے جماعتی الیکشن یا پرائمری (کاکیسز) کا انعقاد تین فروری سن 2020 کو ہو گا۔ آئیووا کے کئی عمر رسیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کوئی ہم جنس پسند امیدوار کرتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
ع ح ⁄ اا (اے پی)
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار
امریکی صدارتی الیکشن کے 10 ریپبلکن امیدواروں کا ٹیلی وژن مباحثہ۔ انتخابی نعروں اور بیان بازیوں کا مقابلہ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جیب بُش مرکزی کردار۔
تصویر: Reuters/A.P. Bernstein
ڈونلڈ ٹرمپ۔ ایک منفرد پراپرٹی ڈیلر
ڈونلڈ ٹرمپ کی راہ میں آنے والا ہر خاص و عام مصائب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اپنے اسکینڈلز کو فقرہ بازیوں سے ڈیل کر لینے والے ’فیئر گیم‘ سے نابلد ہیں۔ تارکین وطن، خاص طور سے لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والوں کے سخت مخالف ہیں۔ اپنے دس ارب ڈالر کے اثاثوں پر بہت کم ٹیکس ادا کرنے پر اُنہیں فخر ہے۔
تصویر: Getty Images/A. H. Walker
’’جیب2016ء‘‘ بُش کے بنا
جیب بُش اپنے والد جارج ہربرٹ والکر اور اپنے بڑے بھائی جارج ڈبلیو بُش کے سائے میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ فلوریڈا کے سابق گورنرکے پاس تجربہ کار خاندانی نیٹ ورک بھی ہے اور انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک پوری عمارت پر مشتمل دفتر بھی۔ 62 سالہ معتدل قدامت پسند جیب بُش پرانے امریکا کی بحالی چاہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
اسکاٹ والکر۔ 100 فیصد ہارڈ لائنر
نام سے تو اسکوچ وسکی کا خیال آتا ہے تاہم اسکاٹ والکر وسکونسن کے گورنر ہیں۔ ایک اصلاحات پسند کے طور پر وہ وائٹ ہاؤس پہنچنا چاہتے ہیں۔ سماجی امور کے معاملات میں خود ریپبلکن حلقوں میں انہیں انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسقاط حمل، ایمیگریشن اور ہم جنسوں کی شادیاں۔ یہ موضوعات اسکاٹ والکر کے ہاں شجر ممنوع ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Theiler
مایک ھکبی: میڈیا تجربہ کار اور بپٹسٹ کرسچین
ان میں اور ایک سابق امریکی صدر میں ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی شہر سے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں پتا ہے کہ یہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے۔ آیا میڈیا کے شعبے کا تجربہ ان کی مدد کر سکے گا، یہ ایک کھلا سوال ہے؟ مایک ھکبی فوکس نیوز اور ABC ریڈیو کے شوز کی نظامت کیا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Thew
بین کارسین۔ نیروسرجن
ایک ’’جیتے جاگتے لیجنڈ‘‘۔ تاہم یہ کوئی سیاسی اعزاز نہیں، کانگریس لائبریری نے اس نامور سرجن کو اس خطاب سے نوازا ہے۔ کیا یہ ممتاز ڈاکٹر ایک اچھے امریکی صدر بھی بن سکیں گے؟ اس انتخابی مہم کے دوران وہ خود اپنی سب سے بڑی کمزوری بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہم جنس پرستی، مدت قید اور ، مردوں کے جیلوں میں ہم جنس پرست ہو جانے جیسے موضوعات پر نہایت مبہم موقف رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
ٹیڈ کروز۔ ہر بات میں ’نہیں‘ کہنے والے
اسقاط حمل، ہیلتھ انشورنس پالیسیوں میں اصلاحات، ہم جنس پرستوں کی شادی، ٹیکس معاملات میں بہتری، ہر بات میں وہ نہیں ہی کہا کرتے ہیں۔ تاہم ایک معاملے میں وہ حقیقت گوئی سے کام لیتے ہیں اور وہ ہے قدامت پسند انجیلی مسیحی امریکی باشندوں کے بارے میں۔ ان کی جڑیں کیوبا سے ملتی ہیں اس کے باوجود یہ سماجی امور میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ تاہم ایمیگریشن پالیسی میں یہ اعتدال پسند ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
مارکو روبیو۔ سب کے ڈارلنگ
امریکا میں بڑھتی ہوئی ہسپانک رائے دہندگان برادری ہو یا کلاسیکی ریپبلکن، یہاں تک کہ بنیاد پرست ٹی پارٹی کے حامی سب ہی مارکو روبیو کے شیدائی ہیں۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے یہ سینیٹر امریکا میں اب تک غیر مقبول ہیں۔ کیا یہ آئندہ انتخابات میں ٹیوشن فیس یا ایمیگریشن پالیسی میں اصلاحات کے اوباما پوائنٹس کے ساتھ اسکور کر پائیں گے؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Richard Drew
رینڈ پاؤل۔ ہر کسی کے لیے آزادی
کیا ریپبلکن حلقوں میں ان کے دوست پائے جاتے ہیں؟ یہ اپنی پارٹی کے اراکین پر تنقید کیا کرتے ہیں۔ وہ طالبعلموں اور سیاہ فام افریقیوں کی۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کی تعیناتی کے بارے میں بڑے پیمانے پر کوائف اکھٹا کرنے اور دفاعی بجٹ میں اضافے کو رد کرنے والے رینڈ پاؤل حکومت سے شہریوں کی نجی زندگی سے دوری اختیار کرنے اور ہر کسی کو آزادی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
کرس کرسٹی۔ اعتدال پسند ہیوی ویٹ
عوام سے قریب اور مکالمت کے لیے ہمہ وقت تیار۔ پروسیکیوٹر کی حیثیت سے کرسٹی بہت سے سیاستدانوں کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف لڑنے والے ماحولیاتی تبدیلیوں اور ایمیگریشن پالیسی میں نرمی جیسے موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کر کہ وہ اکثر اپنی پارٹی میں کھلبلی مچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کے اُن کے اوور ویٹ ہونے پر بھی اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے لیے بھی وہ گیسٹرک بینڈ کا استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A. Wong
جان کیسک
ان کے والدین کا تعلق کرشیا اور چیک جمہوریہ سے تھا۔ کیا اسی وجہ سے انہیں نیشنل ہیلتھ انشورنس کا اندازہ ہے اور یہ ’اوباما کیئر‘ کی حمایت کرتے ہیں؟ وگرنہ انہیں ریپبلکن مرکزی دھارے کی زد میں آئیں گے۔ ان کے اہداف: ایک ہلکی پھلکی ریاست، ایک متوازن قومی بجٹ۔ اس کی کوشش یہ بل کلنٹن کے دور میں بھی کرتے رہے ہیں۔