کیا انگریزوں نے ہندوستان کو فتح کیا تھا؟
11 اپریل 2021یا تو وہ ملک پر قبضہ کر کے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے تھے یا پھر لوٹ کے مال کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے، جب ہم انگریزوں کی آمد اور ان کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلی بات تو یہ واضح ہو کر آتی ہے کہ انگریز ہندوستان میں حملہ آور ہو کر نہیں آئے تھے بلکہ وہ بحیثیت تاجر کے آئے تھے، جن کا مقصد تجارت کے ذریعے منافع کمانا تھا۔
پھر وہ کون سے حالات تھے کہ وہ تجارت سے سیاست کی طرف چلے گئے اور یہاں اپنا اقتدار قائم کر لیا؟ سر جون سیلے جو کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ ان کا نقطہ نظر ہے کہ انگریزی اقتدار کسی منصوبے کے تحت نہیں بلکہ Absent mindedness کے تحت یعنی غیر یا لاشعوری طور پر وجود میں آیا۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ مغل زوال کی وجہ سے جو خلا پیدا ہو رہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس خلا کو پورا کر کے سیاسی طاقت بن جائے۔ اس نقطہ نظر کے برعکس ہندوستانی مورخ موگھر جی نے اپنی کتاب "The rise and fall of the East India Company" یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے عروج و زوال کی تاریخ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ کمپنی ابتداء ہی سے سیاسی طاقت حاصل کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں اسے تجارت سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی امید تھی۔ لہٰذا کمپنی نے ایک منصوبے کے تحت آہستہ آہستہ اپنے اقتدار کے لیے راستے صاف کیے۔
ہندوستان میں انگریزوں کے علاوہ فرانسیسی اور ڈچ بھی آئے کیونکہ اورنگزیب کی وفات کے بعد ہندوستان میں سیاسی انتشار پیدا ہوا، اس لیے ان تجارتی کمپنیوں نے اپنی فیکٹریوں یا تجارتی گوداموں کے لیے حفاظتی فوج رکھی۔ یہ فوجی ہندوستانی تھے، مگر ان فوجیوں کو مغربی طرز پر تربیت دی گئی، جس میں نظم و ضبط کی بڑی اہمیت تھی، جبکہ ہندوستان میں فوجیوں کو مناسب تربیت نہیں دی جاتی تھی اور جنگ کے میدان میں یہ ہجوم کی سی صورت اختیار کر لیتے تھے۔ اسی کا مشاہدہ کرتے ہوئے یورپی سیاحوں نے لکھا تھا کہ یورپ کا ایک تجربہ کار جنرل اپنی تھوڑی سی منتظم فوج کے ساتھ ہندوستانیوں کو شکست دے سکتا ہے۔
یورپ میں ڈسپلین کی روایت ان کی باہمی جنگوں کی وجہ سے ہوئی، جس کی وجہ سے وہ میدان جنگ میں اپنی اپنی جگہ پر جنرل کے احکامات کی تعمیل کرتے تھے۔ جنوبی ہندوستان میں خاص طور سے انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان مقابلہ تھا کہ مقامی ریاستوں سے رابطہ کر کے ان سے تجارتی سہولتیں طلب کریں۔ دوسری جانب ان ریاستوں نے اپنے مفادات کے تحت فرانسیسیوں اور انگریزوں کو باہمی جنگوں میں استعمال کیا۔ اسی وجہ سے یہ یورپی کم تجارتی کمپنیاں ہندوستانی سیاست میں ملوث ہوتی چلی گئیں۔
اس مقابلے میں بالآخر ایسٹ انڈیا کمپنی کو فرانسیسیوں پر فتح حاصل ہوئی اور یہاں سے ہی روبرٹ کلائیو 1757ء میں پلاسی کی جنگ لڑنے گیا۔ اس جنگ میں فتح کی وجہ سے انگریزی اقتدار کی راہیں کھل گئیں اور انہوں نے آہستہ آہستہ ہندوستان کی ریاستوں پر قبضے کرنا شروع کر دیے اور مغل بادشاہ ان کا وظیفہ خوار بن گیا۔
انگریزوں کو کیونکہ یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ جب ہم اس سوال کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا اپنے ساتھ کوئی فوج لے کر انگلستان سے نہیں آئی تھی۔ اس کے تمام فوجی ہندوستانی تھے، سوائے ان کے افسروں کے۔ انہوں نے اپنے فوجیوں کی نہ صرف تربیت کی تھی بلکہ ان کی تنخواہیں مقرر کر کے پابندی سے دیا کرتے تھے۔ جب کمپنی کو بنگال اور بہار میں دیوانی کے حقوق ملے تو لگان وصول کرنے کا کام بھی ہندوستان کے عملے نے کیا۔ کمپنی کو قرضہ دینے کا کام بھی ہندوستانی بینکاروں نے کیا، جن میں خاص طور سے جگت سیٹھ کا نام آتا ہے۔ یہ کمپنی کی حکومت کی نہ صرف مالی مدد کرتے تھے بلکہ اس کے لیے ٹیکس بھی جمع کرتے تھے۔
جب کمپنی کی حکومت نے ریاستی ادارے قائم کیے تو بالائی سطح پر تو اپنے عہدیدار رکھے لیکن نچلی سطح پر یہ ملازمتیں ہندوستانیوں کو دیں۔ جن میں دفتروں کے کلرک، پولیس مین، جاسوسی اداروں کے مخبر یہ سب ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔ ہندوستانی روایت کے تحت اپنے مالک سے وفاداری اہمیت رکھتی تھی۔ اس لیے اس کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی جاتی تھی۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے، جب 1857ء میں ہندوستانی فوجیوں نے بغاوت کی تو انہیں یہ شرمندگی تھی کہ اس کی وجہ سے وہ نمک حرامی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 1857ء کی بغاوت کو تو کچل دیا گیا مگر ایسا بھی ہندوستانی فوجیوں کی مدد سے ہوا۔
1857ء کے بعد کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان تاج برطانیہ کے تحت چلا گیا، لیکن اس دور میں بھی ریاستی انتظامات ہندوستانیوں ہی کی ذمہ داری تھی۔ جب بھی انگریزی حکومت کو ضرورت پڑتی تھی تو ہندوستانی ریاست کے نواب، راجہ اور بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ان کی مالی مدد کرتے تھے۔
ہندوستان کی فوجوں سے انہوں نے غیر ملکی فتوحات کیں، جس کی ایک مثال برما کی ہے۔ ہندوستان کے مزدوروں کو انہوں نے جنوبی افریقہ بھیجا، جہاں انہوں نے کانوں میں کام کیا اور جزائر غرب الہٰند میں ہندوستانی مزدوروں کی کافی تعداد گئی۔ ہندوستان کے پیشہ وروں اور دفتری کلرکوں کو انہوں نے اپنی افریقی کالونیز میں استعمال کیا۔ لہٰذا انتظام بالا تو انگریزوں کے پاس تھا لیکن نچلی سطح پر حکومت کا کاروبار ہندوستانی ہی چلاتے تھے۔
جب وقت اور ماحول بدلنے سے ہندوستانیوں میں سیاسی شعور آیا تو ہندوستان کے بینکاروں اور سرمایہ داروں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ وہ کیوں نہ آزاد ہو کر اپنے سرمائے میں اضافہ کریں اور اپنے مفادات کو پورا کریں۔ لہٰذا انہوں نے کانگریس اور دوسری جماعتوں کو فنڈنگ فراہم کی تاکہ وہ انگریزی اقتدار کے خلاف جدوجہد کریں۔
اس لیے جب ہندوستان آزاد ہوا ہے تو اقتدار میں انگریزوں کی جگہ جو ہندوستانی آئے انہوں نے ریاست کے اداروں اور قوانین میں کوئی خاص تبدیلیاں نہیں کیں اور نہ ہی عوام کو اپنی مراعات میں شامل کیا۔
یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے لیے یہ آزادی بے معنی رہی کیونکہ آج بھی ہندوستان اور پاکستان کے عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہیں غیر ملکی اور اپنی حکومت کے درمیان کوئی زیادہ فرق معلوم نہیں ہوتا ہے۔