کیا نئی فوجی قیادت پاکستان میں استحکام لا سکے گی؟
25 نومبر 2022امید کی جا رہی تھی کہ ان اہمفوجیتقرریوں کے بعد ملک میں سیاسی انتشار کا تاثر ختم ہو جائے گا۔ ساتھ ہی احتجاج اور دھرنے کی سیاست اختتام پذیر ہو گی لیکن پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ احتجاجی پروگرام کو جاری رکھے گی۔
احتجاج جاری رہے گا
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان کے احتجاج کاآرمی چیف کی تقرری سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عمران خان پہلے ہی اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر، پی ٹی آئی کا مسئلہ نہیں۔ پارٹی کی ایک رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ کا کہنا کہ ان کی جماعت قبل از وقت انتخابات کے مطالبے سے بالکل نہیں ہٹی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بالکل غلط تاثر ہے کہ ہم اپنے احتجاجی پروگرام کو ترک کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہم راولپنڈی میں ٹینٹ سٹی قائم کر رہے ہیں اور وہاں پر دس لاکھ سے زیادہ افراد آئیں گے۔ اس بات کا فیصلہ خان صاحب کریں گے آیا اسلام آباد کی طرف جانا ہے یا راولپنڈی میں ہی رہنا ہے۔‘‘
استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ
کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ سیاسی استحکام کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑا اہم ہو گا۔ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ ایک واضح پالیسی نہیں بناتی، سیاسی استحکام حقیقی معنوں میں ممکن نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب بھی اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ شاید عمران خان کو اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔ لہذا اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات بڑی واضح کرنی پڑے گی کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے اور الیکشن مقررہ وقت پر چاہتی ہے یا وہ پس پردہ پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرنا چاہتی ہے۔‘‘
معاشی استحکام
واضح رہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جون کے آخر سے لے کر اب تک 2.2 بلین ڈالر کم ہوئے ہیں اور اس وقت پاکستان کے پاس 7.6 بلین ڈالر موجود ہیں۔ ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ صنعت کار حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ یہ اہم صنعت بند ہونے جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات التوا کا شکار ہیں۔ محمد اکرم بلوچ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو ملک کی خراب ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور ایسی قوتوں کو بالکل سپورٹ نہیں کرنا چاہیے جو ملک کی معاشی حالت کو مزید خراب کر رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں استحکام آ سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''موجودہ آرمی چیف مجھے مخلص لگتے ہیں اور اگر ایسا ہے، تو فوجی اور سیاسی قیادت کو آئی ایم ایف سے جان چھڑانی چاہیے اور متبادل تلاش کرنے چاہیے۔‘‘
تاہم حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ معاشی منظر نامہ مایوس کن ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''احتجاجی جلسے جلوس کی وجہ سے سرمایہ کاروں میں خوف پیدا ہو رہا ہے۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اور اگر عمران خان نے ابھی بھی اس احتجاجی پروگرام کو جاری رکھا تو معیشت کو مزید بڑا دھچکا لگے گا۔‘‘
امداد قاضی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ مختلف سیاسی قوتوں کی حمایت کر رہی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی استحکام نہیں آرہا ہے، ''اور سیاسی استحکام کے بغیر کوئی معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔‘‘
امن و امان اور استحکام
پختون قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان منظم ہو رہی ہے، جہاں کچھ قبائلی رہنماؤں کو قتل بھی کیا گیا ہے جبکہ طالبان پولیس کی عملداری کو بھی چیلنج کر رہے ہیں۔ کچھ سیاست دان یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا ان اہم تقرریوں سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی اور سابقہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں امن وامان کے حوالے سے استحکام آئے گا۔ سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اس حوالے سے بہت زیادہ پرامید نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افغانستان میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد اور پاکستانی ریاستی اداروں کی طرف سے پاکستانی طالبان سے خفیہ مذاکرات کی وجہ سے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھے ہیں۔ انہوں نے خیبرپختونخوا میں شیڈو گورنمنٹ قائم کر لی ہیں اور وہ چندہ بھی لے رہے ہیں۔‘‘
بشری گوہر کے مطابق خوف کا یہ عالم ہے کہ وزراء بھی اپنی حفاظت کے لیے بھتے دے رہے ہیں، ''لیکن ریاست دہشت گردوں کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے، ان لوگوں کے خلاف ایکشن لے رہی ہے، جو انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں یا پرامن طریقے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ لہذا اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں کوئی استحکام آئے گا۔‘‘
سیاسی استحکام آئے گا
تاہم حکومت پر امید ہے کہ پی ٹی آئی کا زور ٹوٹ گیا ہے اور اب اس میں دم خم نہیں رہا۔ سابق گورنر خیبر پختونخواہ اقبال ظفر جھگڑا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تحریک انصاف جتنے چاہے دھرنے دے، الیکشن اپنے وقت پر 2023ء میں ہی ہوں گے۔ ان کے مظاہرے یا احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں کل اسلام آباد میں تھا اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس حوالے سے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور تحریک انصاف کی دباؤ کے کے ہتھکنڈے کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔‘‘