کیا آپ اپنی والدہ کی زندگی جینا چاہیں گے؟
26 اکتوبر 2021میں نے یہ سوال کچھ دن پہلے ایک ٹویٹر سپیس میں پوچھا تھا۔ جو لوگ ٹویٹر سپیس سے واقف نہیں ہیں ان کے لیے بتاتی چلوں کہ یہ ٹویٹر کا نیا فیچر ہے جس کا استعمال کر کے ٹویٹر صارفین آواز کے ذریعے اپنی پسند کے موضوعات پر ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔
کچھ روز قبل میں نے اس سوال پر ایک سپیس منعقد کی تھی۔ میری توقعات کے خلاف اس سپیس میں درجنوں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں سے بہت سے لوگ مائک پر بھی آئے۔ سوائے ایک اسپیکر کے سب نے کہا کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی والدہ کی زندگی نہیں گزارنا چاہیں گے۔ مجھے ہر اسپیکر کا لہجہ بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے اس سوال سے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک اسپیکر تو وفورِ جذبات میں اپنی بات بھی پوری نہیں کر سکیں۔ معذرت کر کے چلی گئیں۔
اکثر کہانیوں کے جواب میں میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ وہی چند کہانیاں تھیں جو پدرشاہی نے ہماری عورتوں کے نصیبوں میں لکھ چھوڑی ہیں۔
سپیس کی شروعات ایک اسپیکر کی والدہ کی کہانی سے ہوئی۔ ان کی والدہ کی ان کے والد سے دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی سے ان کا بیٹا تھا۔ شادی کے وقت ان کے والد نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس بچے کو اپنے ساتھ رکھیں گے لیکن شادی کے چھ ماہ بعد ہی ان کا دل تنگ پڑ گیا۔ بیوی کو حکم دے دیا کہ اپنا بیٹا اپنے والدین کے گھر واپس چھوڑ آئے۔
اسپیکر نے بتایا کہ انہوں نے پوری زندگی اپنی والدہ کو اپنے اس بیٹے کے لیے تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ہاتھوں مجبور تھیں۔ وہ اپنے بیٹے سے کھل کر اپنی محبت کا اظہار بھی نہیں کر پاتی تھیں۔ وہ اس کے لیے سب کے سامنے پریشان بھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کی کسی معاملے میں مدد کرنا تو بہت دور کی بات تھی۔ ان کا اپنے والدین کے گھر جانا اور اپنے بیٹے سے ملنا شوہر کے موڈ پر منحصر تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی تکلیف میں گزار دی۔
خاتون اسپیکر نے کہا کہ وہ اپنی والدہ کی تکلیف محسوس کر سکتی تھیں لیکن اس تکلیف کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ گھر میں طاقت ان کے والد کے پاس تھی اور وہ اس طاقت کے سہارے خود کو ان سب کی زندگی کا مالک سمجھے بیٹھے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ جیسے ان کے والد نے ان کی والدہ کے جذبات کا احساس نہیں کیا اور انہیں پوری زندگی پُل صراط پر کھڑے رکھا، اسی طرح ان کی زندگی پر بھی کوئی اپنا زور چلائے۔
اگلی کچھ کہانیاں بھی ایسی ہی تھیں۔ ایک اسپیکر نے کہا کہ ان کی والدہ نے دو طرح کی پدرشاہی کا سامنا کیا۔ ایک تو وہ جس کا سامنا ہر عورت کو رہتا ہے، دوسری پشتون ثقافت کی پدر شاہی، جو وہاں کی عورتوں کو زندگی بھر فرسودہ روایات سے باندھے رکھتی ہے۔ ان کی والدہ کی چودہ سال کی عمر میں شادی کر دی گئی تھی۔ اس سے پہلے پڑھنے بھی نہیں دیا گیا تھا۔ شادی کے بعد انہیں اپنی زندگی پر کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ ان کا کام بس گھر کے کام کرنا، شوہر کی دلجوئی کرنا اور ہر سال بچہ پیدا کرنا تھا۔
انہوں نے اپنی والدہ کو ساری عمر طاقت وروں کے آگے جھکا ہوا ہی دیکھا۔ انہیں جب زندگی نے اپنے لیے ایک الگ راہ چننے کا موقع دیا تو ان کی والدہ نے ہی انہیں کہا کہ وہ اسی راہ کو چنیں اور اپنی زندگی اپنی شرائط پر گزاریں۔
ایک اسپیکر نے کہا کہ وہ کیا اگر ان کی والدہ کو بھی اپنی زندگی دوبارہ گزرنے کا موقع ملے اور بدلے میں بیس سال اضافی زندگی بھی ملے تو وہ بھی اپنی زندگی دوبارہ جینے سے انکار کر دیں گی۔
ایک اسپیکر نے بتایا کہ مائک پر آنے سے پہلے انہوں نے اپنے تین سال کے بیٹے سے یہی سوال پوچھا تو اس نے بھی ان کی زندگی گزارنے سے انکار کر دیا۔ اس نے انہیں کہا کہ ماما آپ کو تو سب ڈانٹتے رہتے ہیں۔ میں اتنی ڈانٹ نہیں کھانا چاہتا۔
اس ٹویٹر سپیس میں سب اسپیکرز کی باتیں سنتے ہوئے مجھے بس افسوس ہو رہا تھا، ہم سب کی ماؤں کے لیے جن کی زندگیاں پدر شاہی کی نظر ہو گئیں۔ اس فرسودہ سوچ نے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتی تھیں۔ بہت سی عورتوں کو تو اپنی چاہت جاننے کا بھی موقع نہیں ملا۔ ہم سب نے ان کا دکھ محسوس کیا لیکن ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ جن کے اختیار میں تھا وہ طاقت کے نشے میں چور تھے۔
تاہم، انہی بے بس عورتوں نے ہمیں اس معاشرے اور اس کی سوچ کے آگے جھکنے نہیں دیا۔ انہوں نے ہمیں وہ طاقت دی جو انہیں کبھی نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے ہمارے لیے وہ چکر توڑا جو ان سے پہلے والے ان کے لیے نہیں توڑ سکے تھے۔
اگر انہیں بھی یہ موقع ملا ہوتا تو ہم میں سے بہت سوں کا جواب نہ کی بجائے ہاں ہوتا۔