ایران اور اسرائیل دشمن کیوں ہیں؟
14 اپریل 2024ایران اور اسرائیل پچھلی چند دہائیوں سے ایک دوسرے کے کُھلے دشمن بن چُکے ہیں اور ایران کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو نقشے سے مٹانا چاہتا ہے اور اسے تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اسرائیل اپنی طرف سے ایران کو اپنا سب سے بڑا مخالف سمجھتا ہے۔
لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔
درحقیقت ایران کے سن 1979 کے اسلامی انقلاب تک اسرائیل اور ایران اتحادی تھے۔ ایران سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والی پہلی ریاستوں میں سے ایک تھا۔ اسرائیل ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف اتحادی سمجھتا تھا۔ دریں اثنا، ایران نے خطے کے عرب ممالک کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر امریکی حمایت یافتہ اسرائیل کا خیرمقدم کیا۔
اس وقت اسرائیل نے ایرانی زرعی ماہرین کو تربیت دی، تکنیکی معلومات فراہم کیں اور ایرانی مسلح افواج کی تشکیل اور تربیت میں مدد کی۔ اس کے عوض ''شاہ آف ایران‘‘ نے اسرائیل کو تیل کی شکل میں ادائیگی کی، کیونکہ اس کی بڑھتی ہوئی معیشت کو ایندھن کی ضرورت تھی۔
ایران اسرائیل سے باہر دوسری بڑی یہودی برادری کا گھر بھی رہا ہے۔ اس کے باوجود اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے یہودی ملک چھوڑ گئے۔ آج بھی 20,000 سے زیادہ یہودی ایران میں آباد ہیں۔
اسرائیل ایران تعلقات میں تبدیلی کب آئی؟
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ روح اللہ خمینی اور ان کے مذہبی انقلابیوں نے اسرائیل کے ساتھ ایران کے سابقہ تمام معاہدوں کو ختم کر دیا۔ خمینی نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے پر شدید تنقید کی۔ دھیرے دھیرے ایران کے اسرائیل کے خلاف بیانات میں سختی آتی چلی گئی جس کے اظہار کا مقصد علاقائی عرب ریاستوں یا کم از کم ان کے شہریوں کی حمایت حاصل کرنا تھا کیونکہ ایرانی حکومت اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے بے چین تھی۔
جب اسرائیل نے 1982ء میں ملک کی خانہ جنگی میں مداخلت کے لیے جنوبی لبنان میں فوج بھیجی تو خمینی نے ایرانی پاسداران انقلاب کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مقامی شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت کے لیے روانہ کیا۔ حزب اللہ ملیشیا، جو اس حمایت سے پروان چڑھی، آج لبنان میں براہ راست ایرانی پراکسی سمجھی جاتی ہے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای جو ایران کے موجودہ رہنما ہیں اور جن کے پاس تمام معاملات میں حتمی فیصلے کا اختیار ہے، اپنے پیشروؤں کی طرح اسرائیل کے مخالف ہیں۔ خامنہ ای اور پوری ایرانی قیادت نے بھی بارہا ہولوکاسٹ پر سوال اٹھائے۔
کیا ایران کو اپنا اسرائیل مخالف موقف بدلنا چاہیے؟
تمام ایرانی باشندے اسرائیل کے خلاف ایران کی دشمنی کی حمایت نہیں کرتے۔ سابق ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی رفسنجانی نے 2021ء کے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ''ایران کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ تہران کا موقف اب موجودہ وقت کے مطابق نہیں رہا ہے۔‘‘ فائزہ ہاشمی رفسنجانی، جو ماضی میں ایران کی پارلیمان کی رکن بھی رہی ہیں نے کہا تھا، ''ایغور مسلمان کا چین میں استحصال ہو رہا ہے اور چیچین مسلمان روس میں مظالم کا شکار ہیں اور پھر بھی ''ایران کے دونوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔‘‘
تہران یونیورسٹی میں پڑھانے والے ممتاز ماہر سیاسیات صادق زیباکلام نے اسرائیل کے حوالے سے ایران کی پالیسی پر بارہا تنقید کی ہے۔ زیباکلام نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ 2022ء کے انٹرویو میں کہا تھا، ''اس موقف نے ملک کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کر دیا ہے۔‘‘
مقابل بیانیہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے چند کٹر حامی اور اسرائیل کے خلاف ملک کے مخالفانہ موقف کی حمایت کرتے ہیں اور اسے بڑی طاقتوں کے خلاف دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔
قونصل خانہ برلن میں قائم تھنک ٹینک ''سینٹر فار مڈل ایسٹ اینڈ گلوبل آرڈر‘‘ کے ڈائریکٹر اور تجزیہ کار علی فتح اللہ نژاد کے بقول ایرانی حکومت کے کچھ حامی غزہ جنگ کے تناظر میں اسرائیل پر حملہ کرنے یا خود ایران پر حملوں کا بدلہ لینے میں ایران کی طویل ہچکچاہٹ سے ناراض ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ''فلسطینی کاز کے اہم چیمپئن کے طور پر ایران کی ساکھ کی کمی اور اسرائیل کا براہ راست مقابلہ کرنے میں ہچکچاہٹ‘‘ پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔
نتیجہ
یکم اپریل کو شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر ایک فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینیئر کمانڈر اور چھ دیگر افسران مارے گئے تھے۔ تہران نے اس حملے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے اس کارروائی کا جواب دینے کی دھمکی دی تھی۔
اس کے دو ہفتے بعد، 13 اپریل کو، ایران کے پاسداران انقلاب نے کہا کہ انہوں نے اسرائیل میں اہداف پر ڈرون اور میزائل داغے ہیں۔ اسرائیل کی فوج نے کہا کہ اس نے اور اس کے اتحادیوں نے بہت سے میزائلوں کو اسرائیلی سرحد تک پہنچنے سے پہلے ہی مار گرایا۔
شبنم فان ہائن (ک م /ش ر، ا ب ا)