1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ’ایشیائی نیٹو‘ بنانے کا خیال واقعی قابل عمل ہے؟

2 اکتوبر 2024

جاپان کے نئے وزیر اعظم نے مستقبل میں ایک ’ایشیائی نیٹو‘ کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ آئیڈیا کتنا قابل عمل ہے اور بھارت اس کی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟

جاپان کے نئے وزیر اعظم نے مستقبل میں ایک ’ایشیائی نیٹو‘ کے قیام کی تجویز پیش کی ہے
جاپان کے نئے وزیر اعظم نے مستقبل میں ایک ’ایشیائی نیٹو‘ کے قیام کی تجویز پیش کی ہےتصویر: Ievgen Chabanov/Colourbox

متعدد ایشیائی ممالک نے منگل یکم اکتوبر کو اپنا عہدہ سنبھالنے والے جاپانی وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا کے اس منصوبے کے جواب میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے ایک ''ایشیائی نیٹو‘‘ کے قیام کی تجویز پیش کی۔

اس تجویز کے بارے میں آج دو اکتوبر بروز بدھ جاپانی وزیر خارجہ تاکیشی ایویا نے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ فوری طور پر تو نہیں لیکن مستقبل میں قابل عمل ہو سکتا ہے۔

جاپانی وزیر خارجہ کا ٹوکیو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم خیال ممالک کا ایک کثیر الجہتی نیٹ ورک بنانے اور علاقائی دفاع کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوششوں کے طور پر یہ مستقبل کے لیے ایک آئیڈیا ہے۔‘‘

کواڈ سمٹ: موضوع چین کے ساتھ کشیدگی اور بحری سلامتی، بائیڈن

انہوں نے اس تناظر میں مزید کہا، ''فوری طور پر ایسا طریقہ کار ترتیب دینا مشکل ہے، جو ایشیا میں باہمی دفاعی ذمہ داریاں عائد کرے، اس لیے یہ مستقبل کے لیے ایک وژن ہے۔‘‘

شیگیرو ایشیبا نے ستمبر میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں  واشنگٹن کو ''ایشیائی نیٹو‘‘ بنانے کی یہ تجویز پیش کی تھی تاکہ چین کو ایشیا میں فوجی طاقت کے استعمال سے روکا جا سکےتصویر: Eugene Hoshiko/AP Photo/picture alliance

قبل ازیں شیگیرو ایشیبا نے ستمبر میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کے لیے لکھے گئے ایک مقالے میں  واشنگٹن کو ''ایشیائی نیٹو‘‘ بنانے کی یہ تجویز پیش کی تھی تاکہ چین کو ایشیا میں فوجی طاقت کے استعمال سے روکا جا سکے۔

دوسری جانب منگل کے روز بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اس منصوبے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس ''ایشیائی نیٹو‘‘ کے وژن سے متفق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا بھارت اس طرح کبھی بھی کسی دوسرے ملک کا اتحادی نہیں رہا اور اس نے جنوبی ایشیا میں ایک مختلف انداز اختیار کر رکھا ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے بھی اس خیال کے بارے میں خاموشی رہنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے امریکی وزیر خارجہ کے معاون ڈینیل کرٹن برنک نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اس طرح کی بات چیت فی الحال قبل از وقت ہے۔

تاہم آج کی پریس کانفرنس میں جب جاپانی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ آیا اس اتحاد کا مقصد چین کو نشانہ بنانا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فریم ورک کا مقصد کسی مخصوص ملک کے لیے نہیں ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''بہترین طریقہ دفاعی اور سکیورٹی تعاون کے تعلقات پر مبنی ہو گا، جو کسی مخصوص قوم کو الگ کیے بغیر انڈو پیسیفیک تک پھیلا ہوا ہو۔‘‘

تاہم آج ہی جاپانی وزیر دفاع جنرل نکاتانی نے ایک الگ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم اشیبا کی طرف سے انہیں نیٹو کے برابر ایشیائی اتحاد قائم کرنے کی تجویز پر عمل کرنے کے لیے نہیں کہا گیا۔

ا ا / ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں