کیا ایک فلم دیکھنے سے سیاسی خیالات بدل سکتے ہیں؟
27 اکتوبر 2024کہانی سنانے کا مطلب اذہان کو بدلنا ہے اور فلم بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ فلم سازوں نے سن 1890 کی دہائی میں پہلی متحرک تصاویر کے بعد سے لوگوں کے تاثرات اور اخلاقی اقدار کو بدلنے کے لیے سنیما کا استعمال کیا ہے۔
اب امریکہ میں سائنسدانوں نے اس موضوع پر تحقیق کی ہے کہ کس طرح فلم دیکھنے سے لوگوں میں دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت اور فوجداری نظام انصاف پر ان کی اخلاقی پوزیشن میں تبدیلی آتی ہے۔
یہ نئی تحقیق 21 اکتوبر کو پناس (پی این اے ایس) نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ ایک ملزم کو موت کی غلط سزا دینے اور اس کی رہائی کے حوالے سے بنائی جانے والی ایک دستاویزی نے ناظرین کے دلوں میں قیدیوں کے لیے ہمدردی پیدا کی جبکہ امریکی فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا۔
امریکہ کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر اور اس تحقیق کی شریک محقق ماریان ریڈن کہتی ہیں،''[ہمارا مطالعہ] بتاتا ہے کہ فلم نے شرکاء کو دوسرے انسان کو سمجھنے کے قابل بنایا، اس کے باوجود کہ دوسرے انسان کے ساتھ سماجی بدنامی بھی جڑی ہوئی تھی اور یہ صرف ایک وقتی احساس نہیں تھا۔‘‘
ماریان ریڈن کا مزید کہنا تھا، ''یہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ لوگوں کو دوسرے لوگوں کے ذاتی تجربات سے روشناس کرانا، جو ان کی زندگی سے بہت مختلف زندگی گزارتے ہیں، صحت مند برادریوں اور صحت مند سیاسی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔‘‘
یہ دستاویزی فلم کون سی تھی؟
اس دستاویزی فلم کا نام 'جسٹ مرسی‘ (صرف رحم) ہے اور یہ الاباما میں رہنے والے ایک 45 سالہ سیاہ فام والٹر میک ملن کے بارے میں ہے، جنہیں 1986 میں قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
میک ملین بے قصور تھے۔ جب جرم ہوا تو وہ اپنے ایک خاندانی اجتماع میں تھے لیکن انہیں ایک جھوٹے عینی شاہد کی گواہی کی بنیاد پر سزا سنا دی گئی۔ عدالت کی جانب سے ان کی سزا کو کالعدم قرار دینے سے پہلے انہوں نے چھ سال سزائے موت کے انتظار میں گزارے۔
اس سچی کہانی پر مبنی دستاویزی فلم سن 2019 میں ''جسٹ مرسی‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی اور اس میں میک ملن کا کردار آسکر جیتنے والے جیمی فاکس نے ادا کیا تھا۔
اینیمیٹڈ کارٹونز کے بچوں پر تباہ کن اثرات
ایک تحقیق میں شامل افراد نے، جب یہ فلم دیکھی، تو جیلوں میں قید مردوں کے بارے میں ان کی ہمدردی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ اثرات سیاسی طور پر بائیں اور دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے شرکاء میں یکساں پائے گئے۔
فلم، جذبات، اور پولرائزیشن
فن لینڈ کی یونیورسٹی آف یوویسکولے میں فلمی علوم کے محقق جوس کنیاس باجو کہتے ہیں، ''اس مطالعے کا نیا پن اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ فلمیں کس طرح ناظرین کے تاثرات اور طرز عمل کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر کس طرح 'جسٹ مرسی‘ جیسی فلم ایک 'کال ٹو ایکشن‘ کے طور پر کام کر سکتی ہے۔‘‘
لیکن یہ خیال کہ ایک فلم ذہن بدل سکتی ہے، نیا نہیں ہے۔ جوس کنیاس باجو کہتے ہیں، ''فلم ساز جادوگروں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ فلم کے ابتدائی دنوں سے ہی اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ایڈیٹنگ کے کمالات سے ناظرین کے تاثرات اور جذبات کو کیسے متاثر کیا جائے؟‘‘
انگلش فلم میکر الفریڈ ہچکاک نے یہ تجربہ ایک فلمی سین کے ساتھ یوں کیا تھا: ایک فلمی سین میں ایک خاتون کو ایک بچے کے ساتھ دکھایا گیا اور اس کے بعد ایک مرد کی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ یہ مسکراہٹ ہمدردی والی مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔
اسی طرح دوسرے سین میں خاتون اور بچے کی بجائے ایک خاتون کو بکینی میں دکھایا گیا اور پھر ایک مرد کی مسکراہٹ دکھائی گئی۔ مرد کی وہی مسکراہٹ اس سین میں شہوت انگیز دکھائی دیتی ہے۔
کنیاس باجو وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فلم ساز اکثر اسی علم کے ساتھ کھیلتے ہیں کیوں کہ فلم ایک ایسی محفوظ جگہ ہے، جہاں ناظرین ایسے جذبات کا تجربہ کر سکتے ہیں، جو وہ عام طور پر محسوس نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے فلم سازوں پر ناظرین کے حوالے سے کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
وہ ''جسٹ مرسی‘‘ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فلم کو نظام انصاف میں ایک ترقی پسند سماجی تبدیلی کے لیے بطور آلہ استعمال کیا گیا ہے۔
لیکن فلمساز ہمدردی کی بجائے نفرت پر مبنی اور مخالفانہ جذبات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پروپیگنڈہ فلمیں طویل عرصے سے لوگوں کو غیر انسانی بنانے اور تشدد یا جنگ کا جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جھوٹی داستانوں اور سوڈو سائنس کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
فریڈ شوالر (ا ا / ش ر )