کیا ’بریگزٹ‘ کے بعد پوری یورپی یونین خطرے میں ہے؟ تجزیہ
26 جون 2016برطانیہ میں یورپی یونین چھوڑنے کے حامیوں کے ایک بڑے رہنما اور ممکنہ طور پر مستقبل کے وزیر اعظم بورس جانسن کہتے ہیں کہ اپنے دور میں یورپی یونین کا تصور یقیناً قابلِ قدر ہو گا لیکن اب یہ برطانیہ کے لیے سود مند نہیں ہے۔ بہت سے یورپی اور یقیناً کئی برطانوی بھی اس موقف سے متفق نہیں ہوں گے۔ آئیے دیکھیں کہ یورپی یونین کے نہ ہونے سے ہم کن چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔
کھلی سرحدیں
1980ء کے عشرے کے اوائل میں جرمنی سے پولینڈ جانے والوں کو جگہ جگہ ٹینک نظر آتے تھے اور چیکنگ کروانا پڑتی تھی۔ سرحدی چیک پوائنٹس پر گھنٹوں انتظار کے ساتھ ساتھ امیگریشن حکام کے سخت رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ آج کل پولینڈ کی اسی سرحد پر لوگ رُکے بغیر اپنی گاڑی آگے بڑھا دیتے ہیں۔ چند ہی عشروں میں اتنی بڑی تبدیلی کبھی کبھی ناقابلِ تصور لگنے لگتی ہے۔
یورو
1980ء اور 1990ء کے عشرے میں یورپ میں سفر کے دوران لوگوں کو مختلف ممالک کی کرنسیاں اپنے ساتھ رکھنا پڑتی تھیں اور جگہ جگہ پیسے بدلوانا پڑتے تھے۔ آج کل یورپ کے زیادہ تر ممالک میں ایک ہی کرنسی یعنی یورو سے کام چل جاتا ہے۔
چارجنگ کے لیے ایک ہی طرح کی کیبل
یہ سہولت 2017ء سے دستیاب ہو گی۔ آئندہ برس سے سمارٹ فونز اور ٹیبلٹ وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کو ایک ہی طرح کی چارجنگ کیبلز تیار کرنا ہوں گی۔ یورپی یونین اور بھی بہت سی چیزوں کو ایک جیسا بنانے میں مصروف ہے۔
طالبعلموں کا تبادلہ
آج کل یورپی یونین کے وضع کردہ آسان اور واضح قواعد و ضوابط کی وجہ سے مختلف رکن ملکوں کے درمیان طالب علموں کا تبادلہ بھرپور طریقے سے جاری و ساری ہے، نوجوان یورپی مختلف زبانیں سیکھ رہے ہیں اور اپنے یورپی ہمسایوں سے جان پہچان بڑھا رہے ہیں۔
بینکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی
چند عشرے پہلے تک ایک سے دوسرے یورپی ملک میں ایک سو یورو بھیجنے پر پچیس یورو تک کا خرچہ آ جاتا تھا۔ اب یورپی یونین اس معاملے میں بھی بینکوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، جس پر صارفین بہت خوش اور مطمئن ہیں۔
جمہوری عمل میں شرکت
تمام یورپی شہری اپنی اپنی علاقائی اور قومی پارلیمانوں کے ساتھ ساتھ 1979ء سے براہِ راست یورپی پارلیمان بھی منتخب کر رہے ہیں، جس کا یورپی قانون سازی پر اثر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اتنے رنگا رنگ سیاستدانوں، متنوع زبانوں اور گوناگوں آراء کی حامل یورپی پارلیمان نہیں ہو گی تو یقیناً ہر یورپی شہری اس کی کمی محسوس کرے گا۔