پولیس ریکارڈ کے مطابق محض جنوری سے 25 ستمبر کے درمیان فیصل آباد میں کم عمر بچوں کے اغوا کے 186 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق محض جنوری سے 25 ستمبر کے درمیان فیصل آباد میں کم عمر بچوں کے اغوا کے 186 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ تصویر: Adobe Stock
اشتہار
یہ صورتحال محض ایک شہر تک محدود نہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں ملک بھر سے 605 بچوں کے اغوا اور 192 بچوں کے گم ہونے کے واقعات ریکارڈ کا حصہ بنے۔
اگر ہم گزشتہ برس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو غیر سرکاری تنظیم سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2024 میں ملک بھر سے 2,400 سے زائد بچوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے۔
بچوں کے اغوا منظم گروہوں کی کارروائیاں ہیں یا چند افراد کی ذاتی مجبوریوں اور محرومیوں کا نتیجہ؟
ڈارک ویب: اغوا کی اکثر سرگرمیاں منظم گروہوں کی کارروائیاں
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی چیئر پرسن ڈاکٹر منزہ بانو کے مطابق بچوں کے اغوا کے بیشتر واقعات منظم گروہوں کی کارروائیاں ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ’’میری رائے میں زیادہ تر کیسز میں بچوں کو منظم گروہ اغوا کرتے ہیں جن کے لیے یہ ایک معاشی سرگرمی ہے۔ ایسے گروہ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنا کر ڈارک ویب کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کو اغوا کر کے خود مستفید ہونا یا انہیں سیکس ورکر کے طور پر تیار کرنا بہت تکلیف دہ بات ہے لیکن ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔"
کراچی کی غیر منافع بخش تنظیم روشنی ہیلپ لائن 1138 کی دو سال پہلے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اغوا ہونے والے 33 بچوں کی لاشیں ملیں جن میں سے بیس کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔تصویر: Ali Kaifee/DW
جون کے پہلے ہفتے میں وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ڈی جی سائبر کرائم ایجنسی کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مظفر گڑھ میں ایک ایسے گروہ کے گرفتار کیے جانے کا انکشاف کیا جو بچوں کی نامناسب ویڈیوز بنا کر انٹرنیشنل سطح پر فروخت کر رہا تھا۔
پریس کانفرنس میں طلال چوہدری نے بتایا،”گینگ مظفر گڑھ میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث تھا، بچوں کی ویڈیوز کو ڈارک ویب پر بیچا جاتا تھا۔ سائبر کرائم ونگ نے ایک بڑا نیٹ ورک پکڑا ہے۔ 23 مئی کو پانچ گھنٹے طویل آپریشن کیا گیا، دو افراد گرفتار کیے گئے۔ دس بچے بازیاب کرائے گئے پانچ بچوں کو چائلد پروٹیکشن بھیجا گیا۔"
مختلف غیر سرکاری رپوٹس بچوں کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا ذکر کرتی ہیں۔
کراچی کی غیر منافع بخش تنظیم روشنی ہیلپ لائن 1138 کی دو سال پہلے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اغوا ہونے والے 33 بچوں کی لاشیں ملیں جن میں سے بیس کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
اشتہار
کیا سماجی دباؤ بھی ایسے جرم پر مجبور کر سکتا ہے؟
فیصل آباد میں حالیہ دو واقعات کی ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اولاد نہ ہونے کی محرومی اور معاشرتی دباؤ بعض اوقات انسان کو بچوں کے اغوا جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔
ایک واقعے میں خاتون نے بتایا کہ شادی کے آٹھ سال بعد بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ شدید دباؤ کا شکار تھی۔ خاندان کے دباؤ اور ذاتی خواہش کے تحت اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک بچے کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں ملک بھر سے 605 بچوں کے اغوا اور 192 بچوں کے گم ہونے کے واقعات ریکارڈ کا حصہ بنے۔تصویر: Faridullah Khan
دوسرے واقعے میں ایک عورت نے بچہ نہ ہونے کے سبب حمل کا ڈرامہ رچایا اور بعد میں ایک نومولود کو اغوا کر کے اپنا بتانے کی کوشش کی۔
سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس اس حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''خدانخواستہ اگر میری یا آپ کی اولاد نہ ہو تو کیا ہم ہسپتال جا کر بچہ اغوا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن ایسے واقعات منظم گروہوں کی کارروائیاں ہی ہوتے ہیں جو بچوں کو چوری، منشیات لے جانے، ان کے اعضاء یا انہیں سمگل کرنے، پورنوگرافی یا دوسرے جرائم میں استعمال کرنے کے لیے اغوا کرتے ہیں۔ ممکن ہے مزید تفتیش میں یہ بات واضح ہو کہ مذکورہ واقعات میں ملوث افراد فرداً فرداً نہیں بلکہ منظم طریقے سے کام کر رہے تھے۔"
فیصل آباد کی ڈاکٹر عائشہ احمد کے مطابق ہسپتالوں کی نرسری سے بچوں کے اغوا میں زیادہ تر بانجھ پن کا شکار جوڑے یا سماجی دباؤ کا سامنا کرنے والی خواتین ہوتی ہیں، جبکہ منظم گروہ نسبتاً بڑے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں جنہیں پالنا اور استعمال کرنا آسان سمجھا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں چھوٹا عملہ اندرون خانہ ملا ہوتا ہے اور بدلے میں بھاری رقوم حاصل کرتا ہے۔"
عائشہ احمد کے بقول، ”بے اولاد جوڑے عموماً رشتہ داروں سے بچہ لے کر پرورش کرتے ہیں لیکن کئی بار سماجی طعن و تشنیع اور مستقبل میں حقیقی والدین کے دعووں کے خوف سے وہ یہ راستہ اختیار نہیں کرتے، اسی لیے غیرقانونی ذرائع کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔"
مختلف رپورٹس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اغوا یا گم ہونے والے بچے بڑی تعداد میں بازیاب بھی ہو جاتے ہیں۔تصویر: ARIF ALI/AFP
بچوں کی بازیابی: حکومتی اقدامات کس قدر مؤثر؟
مختلف رپورٹس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اغوا یا گم ہونے والے بچے بڑی تعداد میں بازیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
روشنی ہیلپ لائن 1138 کے مطابق گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں لاپتہ بچوں کی تعداد تقریباً 1,100 تھی جن میں سے سال کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات سو بازیاب کر لیے گئے تھے۔
غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ مختلف صوبائی اور وفاقی ادارے بھی بچوں کی بازیابی اور ان کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے 'میرا پیارا ‘ پروگرام کے تحت صرف گزشتہ ایک سال کے دوران 35 ہزار سے زائد بچوں کو ان کے اہل خانہ سے دوبارہ جوڑا گیا، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
ساحل کی چیئر پرسن ڈاکٹر منزہ بانو کے مطابق حکومتی سطح پر بچوں کی اسمگلنگ اور استحصال کے خلاف پہلے کے مقابلے میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے: ”پہلے یہ مشکل پیش آتی تھی کہ ایسے کیسز کس ادارے کو ریفر کیے جائیں، لیکن اب ریاستی سطح پر اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ آپ پولیس کو رپورٹ کریں تو رسپانس ملتا ہے۔ اس مسئلہ کو مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
اسی حوالے سے سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کا کہنا تھا، ''ٹیکنالوجی اور جدید نظام اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ریاست نے نئی قانون سازی اور اداروں کے قیام کے ذریعے سنجیدگی کا اظہار کیا، لیکن پولیس کو اب بھی خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کے بقول، ’’جس طرح بھکاریوں کے منظم گروہ موجود ہیں، اسی طرح بچوں کے اغوا میں بھی منظم نیٹ ورکس سرگرم ہیں۔ ہر چوک پر بھکاری نظر آتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ جب تک اس صورتحال پر قابو نہیں پایا جاتا، ہر سال سینکڑوں بچے لاپتہ ہوتے رہیں گے۔ "
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘