کیا بھارتی فورسز کی تحویل میں پر اسرار شخص ’چینی جاسوس‘ ہے؟
23 جون 2021
بھارتی سکیورٹی فورسز کی قید میں چینی شہری ہان جن وی کا کہنا ہے کہ وہ غلطی سے بھارت میں داخل ہوگئے تھے جبکہ بھارتی حکام کو ان پر چینی جاسوس ہونے کا شک ہے۔ فی الوقت ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
اشتہار
بھارت کا دعوی ہے کہ چھتیس سالہ چینی شہری ہان جن وی کو بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر اس وقت گرفتار کیا گيا تھا جب وہ بھارتی علاقے میں داخل ہو گیا تھا۔ حکام کے مطابق چونکہ ان کے پاس کوئی قانونی سفری دستاویزات موجود نہیں تھے اس لیے تفتیشی ایجنسیاں ان سے اب بھی پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔
مذکورہ چینی شہری کو بھارتی سرحدی دستے ’بارڈر سکیورٹی فورسز‘ (بی ایس ایف) نے ریاست مغربی بنگال کے شہر مالدہ کی ملک سلطان پور چیک پوسٹ سے گرفتار کیا تھا۔ بی ایس ایف کا دعویٰ ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے بھارتی علاقے میں داخل ہوئے اور جب انہیں روکا گيا تو انہوں نے فرار ہونے کی کوشش بھی کی، پھر سکیورٹی اہلکاروں نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے ان کو پکڑ لیا۔
چینی شہری سے کیا برآمد ہوا؟
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ہان جن وی کی تحویل سے مواصلاتی نظام سے وابستہ کئی الیکٹرانک ڈیوائسز دستیاب ہوئی ہیں۔ ان کے پاس سے ایپل کا لیپ ٹاپ اور آئی فون کے ساتھ ساتھ دو چینی، ایک بنگلہ دیشی اور ایک بھارتی سِم کارڈ اور پیسوں کی لین دین والی چند مشینیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ امریکی ڈالر اور چند اے ٹی ایم کارڈز بھی ان کے پاس سے ملے ہیں۔ ان کے پاسپورٹ میں نیپال اور بنگلہ دیش کا درست ویزا بھی ہے۔ حکام نے اس حوالے سے میڈیا کے ساتھ بعض تصویریں بھی شیئر کی ہیں اور ان کی گرفتاری اور ان سے پوچھ گچھ پر مبنی بعض ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ہیں۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
بی ایس ایف نے ہان جن وی کو گرفتاری کے بعد مقامی پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان سے اب ابھی تفتیش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بھارتی میڈيا ایجنسیز کی رپورٹوں کے مطابق زیر حراست چینی شہری عمدہ انگریزی زبان بولتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ کافی تربیت یافتہ ہے۔
بھارتی میڈيا نے تفتیشی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے پاس سے جس نوعیت کا ساز و سامان ملا ہے اس سے لگتا ہے کہ ’’غالباﹰ وہ چینی ایجنسی کے لیے کام کرتے ہوں گے۔‘‘ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
مقامی میڈیا کے ذرائع کے مطابق ہان نے بھارت میں داخل ہونے کے لیے چین کے بجائے بنگلہ دیش کو ترجیح دی۔ ’’ان کے پاس سے جس نوعیت کے دستاویزات ضبط کیے گئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ بھارت میں اپنے آپ کو اچھی طرح سے قائم کرنی کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے ایک کاروباری پارٹنر کو لکھنؤ سے پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا اس لیے ان پر حکام کی پہلے سے نظر تھی۔‘‘
بعض اطلاعات کے مطابق چینی شہری بھارت میں بعض سائبر حملوں کا منصوبہ بنا رہے تھے اور تفتیش کے دوران مبینہ طور پر انہوں نے ان باتوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا تعلق سائبر حملوں سے زیادہ سکیورٹی سے ہے۔
زیر حراست چینی شہری کا مؤقف
اس حوالے سے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کیا گيا ہے جس میں چینی شہری ہان جن وی ایک افسر کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ اپنا تعارف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش آئے تھے اور ’’غلطی سے بھارت میں داخل ہو گئے جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر لیا گيا۔‘‘
چین اور بھارت کا تقابلی جائزہ
ماضی میں بھارت اور چین کے مابین تواتر سے کئی معاملات میں اختلاف رائے رہا ہے۔ ان ممالک کے درمیان ایک خلیج حائل ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں چین کی صلاحیتیوں کے بارے میں کم معلومات بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/A.Wong
رقبہ
بھارت: 32,87,469 مربع کلو میٹر ، چین: 95,96,960 مربع کلو میٹر
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Chang
ساحلی علاقہ
بھارت: 7,516 کلو میٹر ، چین: 14,500 کلو میٹر
تصویر: picture alliance/dpa/Blanches/Imaginechina
آبادی
بھارت: 1.32 بلین ، چین: 1.37 بلین
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Jianhua
حکومتی نظام
بھارت: جمہوری پارلیمانی نظام ، چین: یک جماعتی غیر جمہوری نظام
تصویر: picture alliance/dpa
ملکی خام پیداوار (جی ڈی پی)
بھارت: 2,256 بلین ڈالر، چین: 11,218 بلین ڈالر
تصویر: Reuters/J. Dey
فی کس جی ڈی پی
بھارت: 6,616 ڈالر، چین : 15,399 ڈالر
تصویر: DW/Prabhakar
فی کس آمدنی
بھارت: 1,743 ڈالر، چین: 8806 ڈالر
تصویر: picture-alliance/ZB
متوقع اوسط عمر
بھارت: 69.09 برس ، چین: 75.7 برس
تصویر: Reuters/A. Abidi
شرح خواندگی
بھارت: 74.04 فیصد ، چین: 91.6 فیصد
تصویر: Imago/View Stock
افواج
بھارت: 12,00,000 سپاہی ، چین: 23,00,000 سپاہی
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong
برآمدات
بھارت: 423 بلین ڈالر، چین: 2,560 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP
درآمدات
بھارت: 516 بلین ڈالر، چین: 2,148 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP/Str
بندرگاہیں
بھارت: 12 بڑی اور 200 چھوٹی ، چین: 130 بڑی اور 2000 درمیانے سائز کی بندرگاہیں
تصویر: Imago
ائیرپورٹ
بھارت: 126 ، چین : 220 سے زائد
تصویر: Flightradar24.com
ریلوے نیٹ ورک
بھارت: 119630 کلو میٹر، چین: 121000 کلو میٹر
تصویر: Reuters
ملک چھوڑنے والے شہری ( فی 10 ہزار)
بھارت: 4 ، چین: 3
تصویر: Getty Images/AFP/O. Scarff
حکومتی قرضہ
بھارت: 70 فیصد، چین 46 فیصد
تصویر: Reuters/D. Balibouse
بے روزگاری کی شرح
بھارت: 9.8 فیصد ، چین: 10.5 فیصد
تصویر: Reuters/C. McNaughton
تیز رفتار انٹرنیٹ کی رسائی (فی صد شہری)
بھارت: 1.3، چین: 18.6
تصویر: DW/M. Krishnan
افریقہ میں سرمایہ کاری
بھارت: 16.9 بلین ڈالر، چین: 34.7 بلین ڈالر
تصویر: Imago/Xinhua
20 تصاویر1 | 20
ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے بھارت میں داخل ہوئے کیونکہ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر تو دریا ہیں اور وہاں کوئی ایسا نشان بھی نہیں تھا جس سے یہ پتہ چلتا کہ کس جانب بھارت ہے اور کس جانب بنگلہ دیش۔ بات چيت کے دوران وہ بھارت کے اپنے پہلے دوروں اور کاروبار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
اشتہار
چین کی فوج سے تعلق؟
علاوہ ازیں بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی بھی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ہان کے چینی فوج ’پی ایل اے‘ کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ان کی تفتیش سے وابستہ ایک اہلکار کے حوالے سے کہا گيا ہے کہ ہان کو بھارت اور نیپال کے ماؤ نواز باغیوں کے بارے میں کافی اچھی معلومات حاصل ہیں۔
بھارت کے انگریزی اخبار انڈیئن ایکسپریس نے لکھا ہے کہ ہان نے فرار ہوتے وقت کچھ کاغذات پھینکنے کی کوشش کی تھی جو بعد میں وہاں سے ملے ہیں اور ان کا تعلق بینکوں کے لین دین سے اور وہ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
ہان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے قبل بھی کئی بار بھارت کا دورہ کیا تھا تاہم ہان کے پاسپورٹ پر بھارت کا ویزا درج نہیں ہے۔ حکام کو شک ہے کہ شاید وہ بھارت آنے کے لیے مختلف پاسپورٹ استعمال کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بھارت کی مختلف مرکزی اور ریاستی تفتیشی ایجنسیاں ان سے پوچھ گچھ کرتی رہی ہیں لیکن سرکاری سطح پر ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی بیان جاری نہیں کہا گيا ہے۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔