کیا بھارت اور ملائیشیا طویل تجارتی جنگ برداشت کر سکتے ہیں؟
22 جنوری 2020جب سن دو ہزار اٹھارہ میں مہاتیر محمد اقتدار میں آئے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ان عالمی رہنماؤں میں شامل تھے، جنہوں نے سب سے پہلے انہیں مبارکباد دی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''ہماری ایسٹ پالیسی میں ملائیشیا کو ترجیح حاصل‘‘ ہے۔
اس خوشگوار آغاز کے باجود دونوں ملکوں کے تعلقات حالیہ چند ماہ سے تناؤ کا شکار ہیں۔ حال ہی میں ملائیشیا کے وزیراعظم نے نریندر مودی حکومت کے شہریت ترمیمی بل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیا۔ اس سے قبل کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے بھی ملائیشیا نے نئی دہلی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ مہاتیر محمد کے الفاظ میں بھارت نے کشمیر پر ''حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ‘‘ کیا ہے۔
نریندر مودی حکومت نے اس تنقید کا جواب نہ صرف باقاعدہ تحریری صورت میں دیا ہے بلکہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے ساتھ ''تجارتی جنگ‘‘ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ملائیشیا کا شمار پام آئل کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے جبکہ بھارت ملائیشیا سے یہ تیل درآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اندازوں کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے اکتوبر کے درمیان بھارت نے ملائیشیا سے 4.4 میڑک ٹن پام آئل درآمد کیا۔
اب گزشتہ ہفتے بھارت کی مرکزی وزارت تجارت نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، جس کے تحت ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد کو ''فری‘‘ سے ''محدود‘‘ کیٹیگری میں شامل کر دیا گیا ہے۔ تجزیہ کار اسے بھارت کا ایک 'چالاک اقدام‘ قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس طرح نہ تو نئی دہلی پر 'باقاعدہ پابندی عائد کرنے‘ کا الزام عائد ہو گا اور دوسری طرف ملائیشیا کو واضح پیغام بھی دے دیا گیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اس کی تنقید سے خوش نہیں ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی تاجروں کو غیر سرکاری سطح پر ملائیشیا سے پام آئل درآمد نہ کرنے کا کہا گیا ہے لیکن مودی انتظامیہ اس رپورٹ سے انکار کرتی ہے۔
بھارت کا سخت پیغام
خارجہ امور کے ماہر بھارتی صحافی سنجے کپور کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 'انتقام پرور خارجہ پالیسی‘ اپنائی گئی ہے، ''میرے خیال سے بھارت اپنی بڑی تجارتی منڈی کی طاقت سے واقف ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ امریکا یا دیگر بڑی طاقتوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے دشمنوں کو سبق سیکھا سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب پیر کو ملائیشیا کے وزیر تجارت نے کہا ہے کہ وہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب سے اس مسئلے کے حوالے سے بات چیت کرنے پر تیار ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بھارت اس کا جواب مثبت یا منفی طریقے سے دے گا؟ ایک دوسرے بھارتی صحافی سندیپ ڈکشٹ کا کہنا ہے کہ بھارت اور ملائیشیا کے مابین یہ تنازعہ 'غیرمعمولی اور نادر‘ ہے۔
ماہرین کے مطابق ملائیشیا کے پام آئل سے خود بھارتی معیشت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ ملک مقامی سطح پر موجود پام آئل کی ڈیمانڈ کو کیسے پورا کرے گا؟ ڈی ڈبلیو کی صحافی پریتا کسوماپُتری کے مطابق انڈونیشیا یہ کمی پوری کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے، '' گزشتہ برس ملائیشیا انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بھارت کو پام آئل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا۔ انڈونیشیا کے پاس دوبارہ پہلے نمبر پر آنے کا یہ نادر موقع ہے۔‘‘
کیا یہ صرف معاشی تنازعہ ہے؟
بھارت کے سابق خارجہ سیکریٹری ششنک کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نئی دہلی اور کوالالمپور کے درمیان صرف پام آئل ہی کا جھگڑا نہیں ہے۔ نئی دہلی حکومت پاکستان، ملائیشیا اور ترکی کے ابھرتے ہوئے اتحاد سے بھی پریشان ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بھارت کے مسلم ممالک سے اچھے تعلقات ہیں لیکن یہ تین ممالک بھارت مخالف اسلامک بلاک قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘‘
ملائیشیا حکام کا حال ہی میں نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارتی دباؤ کی وجہ سے مہاتیر حکومت دیگر ملکوں کے قریب آتی جا رہی ہے۔ مہاتیر حکومت اب پام آئل پاکستان، فلپائن، میانمار، ویتنام، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، الجزائر، اردن، قزاقستان اور ازبکستان کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تاہم ماہرین کے مطابق بھارت کی بہت بڑی منڈی کا متبادل تلاش کرنا ملائیشیا کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دونوں ہی ملکوں کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ ملائیشیا میں پام آئل کی برآمد کی انچارج خاتون ٹریسا کوک کا حال ہی میں کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک میں موجود بھارتی سفیر اور نئی دہلی میں ملائیشیا کے سفیر کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو دور کیا جا سکے۔
چارو کارتیکیا (ا ا ⁄ع ح)