کیا بھارت اور چین کے مابین سرد مہری ختم ہو رہی ہے؟
23 اکتوبر 2024ایشیا کی دو بڑی طاقتوں کے ان رہنماؤں کے مابین یہ ملاقات روس کے شہر کازان میں صدر ولادیمیر پوٹن کی میزبانی میں ہونے والے برکس کے سہ روزہ اجلاس کے موقع پر ہو رہی ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ ملاقات اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سن 2020 میں ان دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد بیجنگ اور نئی دہلی کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی کم ہو رہی ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار وکرم مسری نے منگل کو دیر گئے کہا، ''برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان دو طرفہ ملاقات ہو گی۔‘‘
دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کے ان رہنماؤں نے آخری بار آمنے سامنے اور باضابطہ بات چیت اکتوبر 2019 میں کی تھی۔ تب چینی صدر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
اس ملاقات کے چند مہینوں بعد ہی یعنی سن 2020 میں لداخ کے علاقے میں ایک سرحدی جھڑپ ہوئی تھی اور پھر دونوں ممالک کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس سرحدی جھڑپ کے نتیجے میں بھارت کے کم از کم 20 اور چین کے چار فوجی مارے گئے تھے۔
چین اور بھارت روایتی حریف ممالک بھی ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر''لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘‘ کے مضافاتی علاقوں پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں، جن کی تقسیم کے بارے میں کوئی واضح معاہدہ موجود نہیں ہے۔
ان دونوں ممالک نے ابھی چند روز پہلے ہی متنازعہ علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کم کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے ایک تنگ پٹی میں گشت کے لیے اپنے فوجیوں کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھارت نے گزشتہ پیر کے روز اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ فوجی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ''گشت کے انتظامات کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘‘
بھارتی وزیر اعظم مودی اور چینی صدر شی کے مابین سن 2022 میں جی ٹوئنٹی رہنماؤں کی میٹنگ کے موقع پر انڈونیشیا میں اور پھر سن 2023 میں جنوبی افریقہ میں بھی سرسری ملاقاتیں ہوئی تھیں۔
بھارت کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آ سکتے، جب تک کہ ان کی لداخ کی سرحد پر تصادم سے پہلے والی حالت کو بحال نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ چار برسوں کے دوران نئی دہلی حکومت نے بہت سی چینی کمپنیوں کے لیے اہم بھارتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا مشکل بنا دیا تھا اور ٹک ٹاک سمیت سینکڑوں چینی گیمنگ اور ای کامرس ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔
نئی دہلی نے اس نام نہاد کواڈ گروپ کے ساتھ بھی گہرے تعلقات استوار کیے ہیں، جو امریکہ کی زیر قیادت کام کر رہا ہے اور جس میں بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ جاپان بھی شامل ہے۔ یہ ممالک ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
چین کے مقابلے میں بھارت نے مغربی کمپنیوں کے لیے ملک میں فوجی ہارڈویئر کی سرمایہ کاری اور مشترکہ پیداوار کے لیے قوانین میں بھی نرمی پیدا کی ہے۔
بیجنگ حکومت اب نئی دہلی سے اقتصادی تعلقات بحال کرنے اور اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں اپنی کمپنیوں تک رسائی کی لیے دباؤ بڑھائے گی۔
ا ا / ش ر (اے ایف پی، روئٹرز)