کیا بھارت میں بی جے پی کی کامیابی کا سلسلہ تھم سکے گا؟
جاوید اختر، نئی دہلی
17 مئی 2018
بھارتی ریاست کرناٹک میں وزیر اعلیٰ بی ایس یدیورپا کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا لیکن یہ سچ اپنی جگہ ہے کہ ہندو قوم پسند بی جے پی بھارت کی ملک گیر سیاسی طاقت ہے۔
اشتہار
بھارت میں سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے ماہرین کے لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے 75 فیصد رقبے اور 68 فیصد آبادی پر آج بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی یا اس کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت ہے۔
بھارت کے تمام دیہات کو بجلی پہنچا دی گئی، حکومتی دعویٰ
جنوبی صوبے کرناٹک میں حکومت کی تشکیل کے لیے جاری جوڑ توڑ کے دوران بدھ سولہ مئی اور جمعرات سترہ مئی کی درمیانی رات نصف شب کے وقت ملکی سپریم کورٹ نے یدیورپا کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کاحلف لینے کی اجازت دے دی، جس کے بعد انہوں نے آج جمعرات سترہ مئی کی صبح کرناٹک کے پچیسویں وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
یدیورپا کی جماعت ایک سو چار سیٹوں کے ساتھ ریاستی پارلیمان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی جب کہ 222 رکنی اسٹیٹ اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے کم از کم بھی 112اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ دوسری طرف الیکشن کے بعد بننے والے کانگریس پارٹی اور جنتا دل کے سیکولر اتحاد نے ایک سوسولہ اراکین کی حمایت کے ساتھ اپنے حکومت سازی کے حق کا دعویٰ کیا لیکن صوبائی گورنر واجو بھائی والا نے یہ دعویٰ مسترد کردیا، جس کے بعد ان پارٹیوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
کرناٹک میں حکومت سازی کا تنازعہ اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھارت کے انتیس میں سے اکیس صوبوں میں بی جے پی کی قیادت والے اتحاد این ڈی اے کی حکومت ہے، جن میں سے پندرہ صوبوں میں تو وزرائے اعلیٰ بھی اسی پارٹی کے ہیں۔ 2014ء میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالاتھا تو صرف سات صوبوں میں این ڈی اے کی حکومت تھی اور بی جے پی کے صرف چار وزرائے اعلیٰ تھے۔ 2014ء کے بعد سے اب تک بائیس صوبوں میں اسمبلی انتخابات ہو چکے ہیں، جن میں این ڈی اے کو پندرہ صوبوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور بی جے پی کو مزید گیارہ ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ کے عہدے مل گئے۔
پچھلے چار سال کی مدت میں بی جے پی کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی خود کو اپنے کارکنوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت قرار دیتی ہے۔ گوکہ 2014ء میں عام انتخابات کے دوران نریندر مودی نے جو وعدے کیے تھے، ساڑھے چار برس گزر جانے کے باوجود ان میں سے شاید ہی کوئی بڑا وعدہ پورا ہوا ہو اور ’نوٹ بندی‘، نیا ٹیکس نظام جی ایس ٹی، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں بڑھی ہیں تاہم بی جے پی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کی حکومت بدعنوانیوں سے پاک ہے جب کہ مرکز میں سابقہ کانگریسی حکومت بدعنوانیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
بی جے پی عوام کو یہ باور کرانے میں بھی بڑی حد تک کامیاب رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملکی ترقی کے لیے ہمہ تن کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014ء کے بعد سے جتنے بھی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں، وہ بی جے پی نے اپنے مقامی رہنماؤں کے بجائے مودی کے نام پر ہی لڑے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بی جے پی کی کامیابی اور بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راز اس کی زبردست تنظیمی طاقت میں پنہاں ہے۔
گجرات فسادات: مودی کی قریبی ساتھی کو بری کر دیا گیا
بھارتیہ جتنا پارٹی دیگر جماعتوں کے برعکس خود کو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت سرگرم رکھتی ہے۔ اس کے کارکن سال بھر عوام سے رابطہ رکھتے ہیں۔ اس کام میں اس جماعت کی مربی ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس بھی اس کی بھرپور مد د کرتی ہے، جس کے مقامی یونٹوں کا جال ملک کے گاؤں گاؤں تک میں پھیلا ہوا ہے۔
سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ممالک – ٹاپ ٹین
پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ اس پکچر گیلری میں جانیے دنیا میں اس اہم فصل کی سب سے زیادہ پیداوار کن ممالک میں ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۰۔ برکینا فاسو
مغربی افریقی ملک برکینا فاسو 283 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۹۔ ترکمانستان
نویں نمبر پر ترکمانستان ہے جہاں سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم میں 288 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/H. Elsherif
۸۔ ترکی
ترکی اس حوالے سے 697 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پر رہا۔
تصویر: MEHR
۷۔ ازبکستان
وسطی ایشیائی ملک ازبکستان 811 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ ساتویں نمبر پر رہا۔
تصویر: Denis Sinyakov/AFP/Getty Images
۶۔ آسٹریلیا
سن 2016-17 کے پیداواری موسم کے دوران آسٹریلیا میں 914 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی اور وہ عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۵۔ برازیل
برازیل میں مذکورہ عرصے کے دوران 1524 ہزار میٹرک ٹن کپاس کاشت کی گئی اور وہ کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: DW/R. Tiene
۴۔ پاکستان
کپاس کا شمار پاکستان کی اہم ترین فصلوں میں ہوتا ہے اور یہ جنوبی ایشائی ملک کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سن 2016 اور 2017 کے پیداواری موسم کے دوران پاکستان میں 1676 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیدوار ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۳۔ امریکا
تیسرے نمبر پر امریکا ہے جہاں گزشتہ پیداوری موسم کے دوران 3738 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی، جو کہ پاکستان سے تقریبا دو گنا زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۲۔ چین
قریب پانچ ہزار میٹرک ٹن کپاس کے ساتھ چین دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
۱۔ بھارت
دنیا میں سب سے زیادہ کپاس بھارت میں کاشت کی جاتی ہے۔ گزشتہ پیداواری موسم کے دوران بھارت میں 5880 ہزار میٹرک ٹن کپاس کی پیداوار ہوئی۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی اگرچہ دلتوں، پسماندہ برادریوں اور قبائلیوں کی عظیم شخصیات کے نظریات کی ہمیشہ مخالف رہی ہے تاہم اس نے ان رہنماؤں کو خود سے جوڑنے کا ڈھنڈورا پیٹ کر بھارت میں ہندوؤں کی آبادی کے تقریباً پچاسی فیصد حصے کو اپنے دام میں لے لیا ہے۔
کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت بھار ت میں بی جے پی مخالف جماعتوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ بی جے پی کی مسلسل فتح کی رفتار کو روکنے میں صرف اسی وقت کامیابی مل سکتی ہے جب کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی انا کو ترک کر کے متحد ہو جائیں۔ اس سلسلے میں اب تھوڑی بہت پہل ہوئی بھی ہے۔
بھارت میں ہر سال ڈھائی لاکھ بچیوں کی موت، وجہ جنسی امتیاز
اس حوالے سے سابق مرکزی وزیر اور جنتا دل یونائیٹڈکے سابق قومی صدر شرد یادو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ 2019ء میں ہونے والے عام انتخابا ت سے قبل ملکی اپوزیشن میں اتحاد ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں اس سلسلے میں کوششیں کر رہا ہوں۔ میں نے کانگریس کے صدر راہول گاندھی سے بھی بات کی ہے۔ سانجھی وراثت کے نام سے ہم نے تمام اپوزیشن جماعتو ں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ہے اور پچھلے دس ماہ میں اس کی چار ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔‘‘
دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں کہاں استعمال کی جاتی ہیں؟
کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ اور بر اعظم امریکا میں قریب چار لاکھ، جب کہ ایشیا میں چار لاکھ چھتیس ہزار گاڑیاں رجسٹر کی گئیں۔ کن ممالک میں گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے؟ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa
۱۔ امریکا
دنیا میں سب سے زیادہ شہریوں کے پاس گاڑیاں امریکا میں ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے ایک ہزار امریکی شہریوں میں سے 821 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
۲۔ نیوزی لینڈ
گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے اس فہرست میں دوسرا نمبر نیوزی لینڈ کا ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 819 گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
۳۔ آئس لینڈ
تین ملین نفوس پر مشتمل یورپ کا جزیرہ ملک آئس لینڈ گاڑیوں کے تناسب کے اعتبار سے یہ یورپ میں پہلے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں فی ہزار شہری 796 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۴۔ مالٹا
چوتھے نمبر پر بھی ایک چھوٹا سا یورپی ملک مالٹا ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری 775 گاڑیاں بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
۵۔ لکسمبرگ
یورپی ملک لکسمبرگ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں فی ایک ہزار نفوس 745 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
۶۔ آسٹریلیا
چھٹے نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں ایک ہزار شہریوں میں سے 718 کے پاس گاڑیاں ہیں۔
تصویر: M. Dadswell/Getty Images
۷۔ برونائی دار السلام
چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل اس ایشیائی ملک میں اکہتر فیصد (یعنی 711 گاڑیاں فی یک ہزار شہری) عوام کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں وہ اس اعتبار سے مسلم اکثریتی ممالک اور ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Rahman
۸۔ اٹلی
اٹلی بھی اس عالمی درجہ بندی میں ٹاپ ٹین ممالک میں آٹھویں نمبر ہے جہاں فی ایک ہزار شہری 706 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
۹۔ کینیڈا
کینیڈا میں ایک ہزار افراد میں سے 646 کے پاس گاڑیاں ہیں اور وہ اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
۱۰۔ پولینڈ
پولینڈ میں فی ایک ہزار نفوس 628 گاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یوں وہ یورپی یونین میں چوتھے اور عالمی سطح پر دسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/J. Arriens
جاپان
جاپانی گاڑیاں بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں اور اس ملک کے اپنے ایک ہزار شہریوں میں سے 609 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ یوں عالمی سطح پر جاپان تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Tsuno
جرمنی
جرمنی بھی گاڑیاں بنانے والے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن فی ایک ہزار شہری 593 گاڑیوں کے ساتھ اس فہرست میں جرمنی سترہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
روس
روس ہتھیاروں کی دوڑ میں تو اب دوبارہ نمایاں ہو رہا ہے لیکن اس فہرست میں وہ انچاسویں نمبر پر ہے اور یہاں فی ایک ہزار شہری گاڑیوں کی تعداد 358 بنتی ہے۔
اقتصادی طور پر تیزی سے عالمی طاقت بنتے ہوئے اس ملک میں ایک ہزار نفوس میں سے 118 کے پاس گاڑیاں ہیں۔ چین اس اعتبار سے عالمی درجہ بندی میں 89ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
بھارت
آبادی کے اعتبار سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں فی ایک ہزار شہری 22 گاڑیاں ہیں اور عالمی درجہ بندی میں بھارت 122ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور کار ساز اداروں کی عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی ایک ہزار شہری 17 گاڑیاں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb/P. Grimm
16 تصاویر1 | 16
شرد یادو کا کہنا تھا، ’’اپوزیشن اتحاد مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہیں اور گورکھ پور، پھول پور اور گرداس پور کے حالیہ ضمنی پارلیمانی انتخابات نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ اگر اپوزیشن متحد ہو جائے، تو بی جے پی کو شکست دینا مشکل نہیں ہے۔‘‘ خیال رہے کہ گورکھ پور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا روایتی پارلیمانی حلقہ تھا، جہاں بی جے پی گزشتہ پچیس برسوں سے کامیاب ہوتی چلی آرہی تھی۔
بھارت کی انتہائی مقروض قومی ایئر لائن، کوئی خریدار ہی نہیں
شرد یادو کہتے ہیں، ’’ملکی عوام میں مودی حکومت کے کام کاج کے حوالے سے بھی بہت غصہ پایا جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ ملک گیر بھارت بند کے ذریعے دلتوں نے سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ظاہر کیا تھا۔ کسا ن بھی ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور مزدور بھی حکومت کے کام اور پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کا مرکز میں اقتدار سے باہر ہو جانا طے ہے۔‘‘
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔