کیا بھارتی عدالتیں انسانی حقوق کے تحفظ سے دستبردارہوگئی ہیں؟
20 مئی 2020پی چدامبرم نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو روک پانے میں ناکامی پر بھارتی عدالتوں کے رویے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر بھارتی رہنما کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں تاہم سابق مرکزی وزیر نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی رہنما نے کشمیر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شاید بھارت اس بات کو سمجھ سکے کہ کشمیریوں کو کس بڑے پیمانے پر ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں عدالتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا، ''مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ گزشتہ تقریبا دس ماہ سے، عدالتیں بھی شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ میں اپنے آئینی فرائض سے دستبردار ہو جائیں گی۔ کم سے کم اب بھارت کے دیگر حصوں کے لوگ ان افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شدت کو تو سمجھ سکیں گے جنہیں حراست میں رکھا گیا اور جو اب بھی زیر حراست ہیں۔''
منموہن سنگھ کے دور حکومت میں پی چدامبرم ہی جموں و کشمیر کے معاملات کے انچارج تھے۔ انہوں نے کشمیر کے تئیں حکومت کی پالیسیوں پر بھی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ''اب جبکہ ہم لاک ڈاؤن چار میں داخل ہوگئے ہیں، مجھے کشمیریوں کی فکر لاحق ہے جو ایک وحشت ناک لاک ڈاؤن میں ہیں۔ اس میں سب سے بری طرح متاثر ہونے والی محبوبہ مفتی اور ان کے سینئر ساتھی ہیں جو ملک کی ایک لاک ڈاؤن ریاست میں اب بھی حراست میں ہیں۔ انہیں تمام طرح کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔''
سابق وزیر داخلہ کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب رمضان میں لاک ڈاؤن کے دوران کشمیر میں پر تشدد سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اور حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ گزشتہ روز ہی سرینگر کے پرانے شہر میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم میں حزب المجاہدین کے ایک سینئر کمانڈر جنید کی ہلاکت کے بعد شہر میں تناؤ کا ماحول ہے۔
اس تصادم کے بعد آس پاس کے کئی مکانات آگ کی زد میں آکر خاکستر ہوگئے۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کی سکیورٹی فورسز نے دانستہ طور پر مکانات کو نشانہ بنایا اور تصادم کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے آس پاس کے کئی گھروں میں لوٹ پاٹ کی اور ان کا قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے۔ اطلاعات کے بعد اس واقعے پر کشمیریوں نے مظاہرہ کیا اور بھارت مخالف نعرے بازی کی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تقریبا دس ماہ سے کرفیو جیسی سخت پابندیاں عائد ہیں تاہم کورونا وائرس کے سبب جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے سختیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر رمضان کے دوران انکاؤنٹر کے واقعات میں بھی ضافہ ہوا جس میں شدت پسندوں کے ساتھ بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
بھارت نے گزشتہ برس اگست میں جموں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارت تحلیل کر دیے تھے اور اس کا ریاستی درجہ ختم کر تے ہوئے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا تھا۔ حکومت نے اس کے خلاف عوامی رد عمل کو روکنے کے لیے کشمیر کے تمام بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا جس میں سے بعض کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن سینکڑوں اب بھی جیلوں میں ہیں۔