کیا بھارت کا ’مشن شکتی‘ مودی کو پھر وزیر اعظم بنوا دے گا؟
جاوید اختر، نئی دہلی
28 مارچ 2019
بھارت میں آئندہ عام انتخابات سے صرف دو ہفتے قبل اینٹی سیٹلائٹ میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا اس ’مشن شکتی‘ کے سیاسی نتائج کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر اقتدار میں آ سکیں گے؟
اشتہار
جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں انتخابی گہما گہمی کے دنوں میں ’مشن شکتی‘ کے نام سے اس اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار کے تجربے پر جہاں ملکی اپوزیشن نے شدید اعتراضات کیے ہیں، وہیں دوسری طرف قومی الیکشن کمیشن یہ طے کرنے میں مصروف ہے کہ آیا اس میزائل تجربے کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے اپنے خطاب کے ساتھ مودی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے؟ بھارتی الیکشن کمیشن نے اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو نریندر مودی کی حکومت سے یہ بھی معلوم کرے گی کہ آخر اس وقت ہی اس تجربے کی کیا ضرورت تھی۔
نئی دہلی میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’وزیر اعظم کی تقریر کا معاملہ کمیشن کے نوٹس میں لایا گیا ہے۔ کمیشن نے کمیٹی کے ارکان کو فوراﹰ اس الزام کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی روشنی میں جانچنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘
متعلقہ سائنسی ادارے کے بجائے مودی کیوں؟
بھارت میں میزائل اور دیگر خلائی تجربات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ان کے بارے میں متعلقہ سائنسی ادارہ یا اس ادارے کے سربراہ ہی میڈیا اور عوام کو مطلع کرتے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے خود قوم سے خطاب کرکے اس ’تاریخی کامیابی‘ کی اطلاع دی۔
قوم سے خطاب کی اطلاع تقریباﹰ ایک گھنٹہ پہلے فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر جس انداز میں دی گئی تھی، اس نے پوری قوم کو حیران کر دیا تھا۔
ملکی اپوزیشن جماعتوں نے سوال کیا ہے کہ اس میزائل کو تیار کرنے والے حکومتی ادارے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) نے خود اس تجربے کی کامیابی کا اعلان کیوں نہ کیا۔
ان سیاسی پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اس کا استعمال صرف اور صرف اپنی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدہ دلانے کے لیے کیا۔ بھارت میں اگلے عام انتخابات کے پہلے مرحلے کے تحت عوامی رائے دہی گیارہ اپریل کو ہو گی۔
کیا الیکشن کمیشن کو خطاب سے قبل بتایا گیا تھا؟
اس بارے میں بائیں باز و کی جماعت مارکسی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’دنیا میں اور بھارت میں بھی اس طرح کے سائنسی کارناموں کا اعلان متعلقہ سائنسی تنظیموں یا اداروں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی یہ کام ڈی آر ڈی او کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے بجائے یہ کام مودی نے کیا۔‘‘
بھارت کے سیاسی افق کا نیا ستارہ، پریانکا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا بھارت کے ایک ایسے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے تین افراد ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اب باضابطہ طور پر عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
جواہر لال نہرو
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
تصویر: Getty Images
اندرا گاندھی
پریانکا گاندھی کی دادی اندرا گاندھی اپنے ملک کی تیسری وزیراعظم تھیں۔ وہ دو مختلف ادوار میں بھارت کی پندرہ برس تک وزیراعظم رہیں۔ انہیں اکتیس اکتوبر سن 1984 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بعد میں منصبِ وزیراعظم پر بیٹھے۔ راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا ہیں، جن کی شکل اپنی دادی اندرا گاندھی سے ملتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
راجیو گاندھی
بھارت کے چھٹے وزیراعظم راجیو گاندھی سیاست میں نو وارد پریانکا گاندھی واڈرا کے والد تھے۔ وہ اکتیس اکتوبر سن 1984 سے دو دسمبر سن 1989 تک وزیراعظم رہے۔ اُن کو سن 1991 میں ایک جلسے کے دوران سری لنکن تامل ٹائیگرز کی خاتون خودکش بمبار نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھا۔ اُن کے قتل کی وجہ سن 1987 میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہونے والا ایک سمجھوتا تھا، جس پر تامل ٹائیگرز نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: Imago/Sven Simon
سونیا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا کی والدہ سونیا گاندھی بھی عملی سیاست میں رہی ہیں۔ وہ انیس برس تک انڈین کانگریس کی سربراہ رہی تھیں۔ اطالوی نژاد سونیا گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کی رکن رہتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla
راہول گاندھی
بھارتی سیاسی جماعت انڈین کانگریس کے موجودہ سربراہ راہول گاندھی ہیں، جو پریانکا گاندھی واڈرا کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے سولہ دسمبر سن 2017 سے انڈین کانگریس کی سربراہی سنبھال رکھی ہے۔ وہ چھ برس تک اسی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے تھے۔ راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان لوک سبھا کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. White
پریانکا گاندھی واڈرا
راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا بارہ جنوری سن 1972 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ انہوں نے سینتالیس برس کی عمر میں عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کی عملی سیاست کا فروری سن 2019 میں حصہ بن جائیں گی۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
سیاسی مہمات میں شمولیت
مختلف پارلیمانی انتخابات میں پریانکا گاندھی واڈرا نے رائے بریلی اور امیتھی کے حلقوں میں اپنے بھائی اور والد کی انتخابی مہمات میں باضابطہ شرکت کی۔ عام لوگوں نے دادی کی مشابہت کی بنیاد پر اُن کی خاص پذیرائی کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر سکتی ہیں اور بالآخر انہوں نے ایسا کر دیا۔
تصویر: DW/S. Waheed
عملی سیاست
پریانکا گاندھی واڈرا نے بدھ تیئس جنوری کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ مئی سن 2019 کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری
انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی پریس ریلیز کے مطابق پریانکا گاندھی کو پارٹی کی دو نئی جنرل سیکریٹریز میں سے ایک مقرر کیا گیا ہے۔ اس پوزیشن پر انہیں مقرر کرنے کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ اور اُن کے بھائی راہول گاندھی نے کیا۔ وہ اپنا یہ منصب اگلے چند روز میں سبھال لیں گی۔
بی جے پی کی تنقید
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پریانکا گاندھی کو کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری مقرر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے خاندانی سیاست کا تسلسل قرار دیا۔
تصویر: DW/S. Wahhed
10 تصاویر1 | 10
سیتا رام یچوری کا کہنا تھا، ’’الیکشن سے کچھ ہی پہلے اس طرح کا اعلان اور پھر قوم سے خطاب یقینی طورپر مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو یہ بتانا چاہیے کہ آیا وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنے سے قبل اسے مطلع کیا تھا اور اگر کیا تھا، تو کمیشن نے اس کی اجازت کیوں دی تھی؟‘‘
سیتا رام یچوری کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی حکومت اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممکنہ شکست سے خوف زدہ ہے، اسی لیے وہ ایسے حربے استعمال کر رہی ہے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چودہ فروری کو پلوامہ میں حملے اور اس کے بعد پاکستانی علاقے میں بھارتی فضائیہ کی کارروائی سے مودی اور ان کی پارٹی کے حق میں جو فضا بنتی دکھائی دے رہی تھی، اس کا اثر اب کم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب مودی حکومت ’مشن شکتی‘ کے سہارے اپنی کشتی پار لگانے کی کوششوں میں ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے چھان بین
وزیر اعظم مودی کے رویے پر کئی سابقہ چیف الیکشن کمشنرز نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر این گوپال سوامی کا کہنا ہے، ’’اگر بات یہ ہے کہ وزیر اعظم ملک کی نمائندگی کر رہے تھے، تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہے تھے، تو تب یہ ایک مسئلہ ہے۔ اب یہ دیکھنا الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ حقیقت کیا ہے؟‘‘ ایک دوسرے سابق چیف الیکشن کمشنر کا اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پرکہنا تھا، ’’یہ مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اس میزائل تجربے کے وقت پر سوال کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔‘‘
بھارت کو روسی دفاعی میزائل نظام کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی پابندیوں کی فکر کیے بغیر بھارت روس سے 5.2 ارب ڈالر مالیت کا ایس چار سو ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم خرید رہا ہے۔ آخر بھارت ہر قیمت پر یہ میزائل سسٹم کیوں خریدنا چاہتا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
تعلقات میں مضبوطی
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/Y. Kadobnov
ایس چار سو دفاعی نظام کیا ہے؟
زمین سے فضا میں مار کرنے والے روسی ساختہ S-400 نظام بلیسٹک میزائلوں کے خلاف شیلڈ کا کام دیتے ہیں۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسے دنیا کا زمین سے فضا میں مار کرنے والا لانگ رینج دفاعی نظام بھی تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Malgavko
بھارت کی دلچسپی
بھارت یہ دفاعی میزائل چین اور اپنے روایتی حریف پاکستان کے خلاف خرید رہا ہے۔ یہ جدید ترین دفاعی میزائل سسٹم انتہائی وسیع رینج تک لڑاکا جنگی طیاروں، حتیٰ کہ اسٹیلتھ بمبار ہوائی جہازوں کو بھی نشانہ بنانے اور انہیں مار گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
کئی مزید معاہدے
بھارت روس سے کریواک فور طرز کی بحری جنگی کشتیاں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ اس طرح کا پہلا بحری جنگی جہاز روس سے تیار شدہ حالت میں خریدا جائے گا جب کہ باقی دونوں گوا کی جہاز گاہ میں تیار کیے جائیں گے۔ بھارت کے پاس پہلے بھی اسی طرح کے چھ بحری جہاز موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
امریکی دھمکی
امریکا نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو ممالک بھی روس کے ساتھ دفاع اور انٹیلیجنس کے شعبوں میں تجارت کریں گے، وہ امریکی قانون کے تحت پابندیوں کے زد میں آ سکتے ہیں۔ روس مخالف کاٹسا (CAATSA) نامی اس امریکی قانون پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اگست میں دستخط کیے تھے۔ یہ قانون امریکی انتخابات اور شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کی وجہ سے صدر پوٹن کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
بھارت کے لیے مشکل
سابق سوویت یونین کے دور میں بھارت کا اسّی فیصد اسلحہ روس کا فراہم کردہ ہوتا تھا لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے نئی دہلی حکومت اب مختلف ممالک سے ہتھیار خرید رہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت امریکا سے تقریباﹰ پندرہ ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
بھارت کے لیے کوئی امریکی رعایت نہیں
گزشتہ ماہ امریکا نے چین پر بھی اس وقت پابندیاں عائد کر دی تھیں، جب بیجنگ حکومت نے روس سے جنگی طیارے اور ایس چار سو طرز کے دفاعی میزائل خریدے تھے۔ امریکی انتظامیہ فی الحال بھارت کو بھی اس حوالے سے کوئی رعایت دینے پر تیار نظر نہیں آتی۔ تاہم نئی دہلی کو امید ہے کہ امریکا دنیا میں اسلحے کے بڑے خریداروں میں سے ایک کے طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dufour
7 تصاویر1 | 7
بھارتی سائنسی برادری بھی وزیر اعظم مودی کے رویے سے خوش نہیں ہے۔ سرکاری ادارے کونسل فار سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے سابق سربراہ، ڈاکٹر گوہر رضا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’اگر اس کامیابی کو سیاست سے جوڑ کر دیکھا جائے، تو یہ ہمارے سائنس دانوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ ’مشن شکتی‘ پر کام آج تو شروع نہیں ہوا۔ اس پر بھارتی سائنسدان کم از کم دس سال سے محنت کر رہے ہوں گے۔ لیکن سیاست دانوں کی طرح سائنس دانوں میں کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کی دوڑ نہیں مچی ہوتی۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔‘‘
’مشن شکتی‘ پر کام تو برسوں سے جاری تھا
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گوہر رضا کا کہنا تھا، ’’اس کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ اب ہم دوسرے ملکوں کے سیٹلائٹس کو نشانہ بنانے لگیں گے۔ اب تک اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ملک نے جنگ کے دوران ایسا کچھ کیا ہو۔ اس کامیابی سے دراصل ہمارے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گی اور اس کا سہرا پوری طرح سائنسدانوں کے سر جاتا ہے۔‘‘
اسی دوران بھارتی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مشن شکتی‘ کا تجربہ کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ بھارت کا خلاء میں ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ نئی دہلی خلاء کو ہتھیاروں کی جگہ بنانے کے خلاف ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مشن شکتی‘ کا تجربہ کم اونچائی پر کیا گیا تاکہ خلاء میں تباہ ہونے والے راکٹ کا کوڑا زمین پر ہی گرے۔
کئی ماہرین نے اس دعوے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کسی ملبے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ یہ خلائی کوڑا کرکٹ کس طرف جائے گا۔ امریکی وزارت دفاع نے بھی کہا ہے کہ وہ بھی بھارت کے اس دعوے کی جانچ کر رہی ہے کہ ’مشن شکتی‘ کے تجربے کے بعد خلاء میں کوئی کچرا نہیں چھوڑا گیا۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔