1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا بھارت کا کثیر جہتی اور سیکولر کردار بحال ہو سکتا ہے؟

21 مارچ 2022

عوامی یادداشت نہایت ہی مختصر ہوتی ہے لیکن یہ توقع نہیں تھی کہ مہنگائی، بے روزگاری، کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی، دریائے گنگا میں بہتی لاشوں اور جلتی چتاؤں کو اتنی جلدی فراموش کر دیا جائے گا۔

تصویر: Privat

بھارت میں ایک بار پھر مندر بنانے کے جذباتی نعروں، گائے کی حفاظت کرنے اور ہندو مسلم تقسیم کے نام پر ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب پانچ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا تو وہ حیران کن تو نہیں تھے مگر امید تھی کہ ووٹ کے ذریعے عوام، حکمرانوں کا احتساب کر کے ان کو احساس ذمہ داری سے کسی حد تک روشناس کرائیں گے۔
مگر اس حقیقت کے باوجود کہ بھارت ایک بڑے معاشی بحران اور مہنگائی کی بلند ترین سطح سےگزر رہا ہے، اس ملک کے ووٹروں نے روٹی اور روزگار کے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے مذہبی خطوط پر ووٹ دے کر حکومت کا انتخاب کیا۔ مذہب اور اس کے نام پر نفرت پھیلانےکی افیون پلا کر عوام کو اپنے مصائب فراموش کروا دیے گئے، جو ان کو حکومتی مشینری کے وجہ سے برداشت کرنے پڑ رہے تھے۔
پچھلے سال تقریباً اسی وقت، جب کورونا کی دوسری لہر نے بھارت کو اپنے لپیٹ میں لیا تھا، تب شاید ہی کوئی گھر ایسا تھا، جو اس کی وجہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بھارت میں تقریباً ہر شخص نے یا تو کوئی دوست، خاندان کا کوئی فرد، کوئی رشتہ دار یا پڑوسی کھو دیا تھا۔

 یہ کرونا وائرس نہیں تھا، جو لوگوں کی جانیں لے رہا تھا بلکہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتالوں کے باہر مر رہے تھے۔ دوائی سے لے کر ہسپتال کے بستروں اور  آکسیجن سیلنڈروں تک ہر چیز کی قلت سے عوام بے حال تھے۔ مُردو ں کو دفنانے کے لیے زمین کم پڑ رہی تھی اور چتاؤں کو جلانے کے لیے لکڑی کی کمی تھی۔

وبائی مرض نے بھارت میں صحت کے کمزور نظام کو بے نقاب کر دیا تھا۔ ریاست اتر پردیش میں دریائے گنگا کے کنارے پڑی لاوارث لاشوں کی تصاویر نے تو پوری دنیا کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ لاکھوں مرنے والوں کی آخری رسومات تک ادا نہیں کی گئی تھیں۔

اس سب کے درمیان حکمراں بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو اور دیگر صوبوں میں اسمبلی انتخابات کی مہم میں مصروف تھی۔ اس وبائی مرض نے نہ صرف اس ملک کے ہر دروازے پر موت کا منظر لا کھڑا کیا بلکہ بھارت کی ایک بڑی آبادی کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔

 یہ بھارتی معیشت کے لیے بدترین وقت ہے، جب بے روزگاری کی شرح 12فیصد سے زیادہ ہے۔ مجھ جیسے بہت سے لوگ، جنہوں نے ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر ان تکالیف کا سامنا کیا تھا، یہ سوچ رہے تھے کہ یہ واقعات عوام کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوں گے اور وہ اب اپنے ووٹ سوچ سمجھ کر معروضی انداز میں کاسٹ کریں گے اور جعلی قوم پرستی اور جذباتی نعروں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔
مگر کیا کیا جائے اس عوامی یادداشت کا، حکمران بی جے پی اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے وسیع نٹ ورک نے زمینی سطح پر اور سوشل میڈیا پر انتخابی بیانیے کو ایک بار پھر مندر بنانے، گائے کی حفاظت کرنے اور مسلم اقلیتوں کو ہندوؤں کا دشمن بتا کر اکثریتی فرقہ میں خوف و ہراس پھیلا کر ان کو یکجا کر کے ووٹ حاصل کیے۔ دوسری طرف اپوزیشن اصل مسائل کو اٹھانے کے بجائے خود کو بی جے پی سے زیادہ ہندو ثابت کرنے میں مصروف رہے اور ووٹروں کو بے روزگاری اور مہنگائی کی یاد دلانے کے بجائے بھگوان رام اور بھگوان کرشن کو یاد کرواتے رہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے فخر سے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں پانچ لاکھ لوگوں کو نوکریاں دی ہیں۔ ایک ایسا صوبہ، جس کی آبادی 204 ملین سے زائد ہو اور بے روزگاری کی شرح 32.9 فیصد ہو، ریاست کے وزیر اعلیٰ کا اس طرح کی گھٹیا کارکردگی کے لیے اپنی پیٹھ تھپتھپانا کہاں تک جائز ہے؟

انتخابی اعتبار سے اتر پردیش بھارتی سیاسی جنگ میں سب سے اہم صوبہ مانا جاتا ہے۔ یہ صوبہ پارلیمنٹ کی 543 نشستوں میں سے 80 اراکین بھیجتی ہے اور ماہرِین مانتے ہے کہ پارلیمنٹ میں جیت کا راستہ اسی صوبے سے ہی ہو کر جاتا ہے۔ اب لوک سبھا کے انتخابات میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ باقی نہیں رہا، بی جے پی کی حالیہ جیت نے بھارتی سیاسی ڈھانچے میں ہندوتوا کی جڑیں مزید مضبوط کر دی ہیں۔
صوبہ پنجاب کو چھوڑ کر، جس نے کہ بی جے پی اور اس کی ہندوتوا سیاست کو مسترد کر دیا ہے، باقی صوبوں نے اس کو گلے لگا لیا ہے۔ یہاں تک کہ دلت اور دیگر پسماندہ طبقات، جنہوں نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تھا، نے ہندوتوا کے ساتھ اتحاد کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔

نہ صرف اتر پردیش میں بلکہ اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی ووٹر نے بڑے پیمانے پر ہندوتوا کے بیانیےکو قبول کرتے ہوئے اور ہندو راشٹر کے قیام کی خواہش رکھنے والی بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ اور سیکولر اپوزیشن کی غیر موجودگی میں، آنے والے سالوں میں بی جے پی کو ٹکر دینے والا کوئی فی الحال نظر نہیں آ رہا ہے۔

 اگرچہ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال اور ترنمول کانگریس کی ممتا بنر جی، جیسے لیڈر اپوزیشن کی خالی جگہوں کو بھرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں لیکن بی جے پی جیسی پارٹی، جس کے پاس ایک منظم پین انڈیا کارڈر اور بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی مالی حمایت ہے، سے مقابلہ کرنا ناممکن کام ہے۔

انتخابی نتائج کو دیکھیں تو اس ملک کی واحد امید اب اس کے ووٹر ہیں، جو امید ہے کہ کسی نہ کسی دن اس زعفرانی نقاب کے پیچھے 'نفرت کا اصل چہرہ‘ دیکھنے میں کامیاب ہو سکیں اور ملک کے رنگارنگ، کثیر جہتی اور سیکولر کردار کو واپس لاکر بھارت کو اقوام عالم میں اپنا وقار بلند کرنے کا سامان فراہم کروا دیں۔

روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں