کیا بھارت کی بڑھتی آبادی اس کی ترقی کی ضمانت ہے؟
7 مارچ 2023کیا بھارت کی تیزی سے بڑھتی آبادی واقعی اسے تیز رفتار ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے، جو اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے بھارت کے حوالے سے متعدد ذہنوں میں پایا جاتا ہیں۔
ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں بھارت کی آبادی 1.4 بلین تک پہنچ گئی تھی۔ ماضی میں بھارت کی آبادی میں مسلسل ہونے والے اس اضافے کو ملکی وسائل پر دباؤ کا باعث ہونے کی وجہ سے منفی پیش رفت خیال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن حال ہی میں اس سوچ مین تبدیلی آئی ہے۔ اب کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور کم عمر آبادی ہونے کے فوائد بھی ہیں۔
لیکن کیا ایسا واقعی ہے؟
بھارت کی آبادی میں کب تک اضافہ متوقع ہے؟
ترقیاتی معاشیات کے ماہر ژاں ڈریزے کی رائے میں بھارت کے دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے سے اس کے لیے عملی طور پر کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔
ان کی اس دلیل کو تقویت اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ملتی ہے، جن کے مطابق 1964ء میں بھارت کی شرح پیدائش فی عورت اوسطاً چھ بچے تھی، جو کہ 2020ء میں کم ہو کر فی عورت 2.1 بچے ہو گئی تھی۔
سن 2020 کی شرح 2.2 کے 'ریپلیسمنٹ ریٹ' سے کچھ ہی کم تھی، جس سے مراد ہے آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے فی عورت پیدائش کی مطلوبہ شرح۔
شعبہ صحت میں بہتری اور متوقع عمر میں اضافے کے پیش نظر ماہرین کا ماننا ہے کہ اگلی کچھ دہائیوں تک بھارت کی آبادی بڑھتی رہے گی۔
ڈیٹا کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئیوں کے مطابق 2064ء تک بھارت کی آبادی 1.7 بلین ہو جائے گی لیکن اس کے بعد اس میں یکدم خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔
اس حوالے سے امریکی ادارے انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن نے پیش گوئی کی ہے کہ اس صدی کے آخر تک بھارت کی آبادی گھٹ کہ دوبارہ ایک بلین ہو جائے گی۔
اس ڈیٹا اور تخمینوں کی روشنی میں ژاں ڈریزے کہتے ہیں کہ وہ بھارت میں آبادی کا بحراننمودار ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، "اس تمام عرصے میں بھارت (آبادی کے لحاظ سے) ایک بڑا ملک رہا ہے اور اس کے باوجود اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سست رفتاری سے ہی صحیح مگر یہاں لوگوں کے حالات زندگی بہتر ہو رہے ہیں اور اس کی آبادی میں اضافہ بھی زیادہ عرصے جاری نہیں رہے گا۔"
اقتصادی ترقی اور برتری
کئی افراد کا یہ بھی ماننا ہے کہ چونکہ بھارت کی نصف سے زیادہ آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، اس کی اقتصادی ترقی کی صلاحیت دوسروں سے برتر ہے۔
لیکن ژاں ڈریزے اس رائے کو مبالغہ قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں بغیر آمدنی والے بچوں اور بزرگوں کے روزگار والے افراد پر انحصار کی شرح پچھلی کچھ دہائیوں میں کافی کم ہوئی ہے اور اب اس میں زیادہ کمی واقع نہیں ہوگی۔ تو بھارت کی اقتصادی ترقی کی صلاحیت کے لحاظ سے برتری کے پیچھے کارفرما عوامل مزید کارآمد نہیں رہیں گے۔
ژاں ڈریزے نے کہا، "ہم اس دور سے گزر چکے ہیں۔ عنقریب مستقبل میں بچے تو شاید زیادہ نہ ہوں لیکن بزرگ افراد کے دوسروں پر انحصار کی شرح میں اضافہ ہوگا۔"
معیار مقدار سے زیادہ اہم
گزشتہ 70 برسوں میں بھارت کی آبادی میں ایک بلین افراد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے لیکن صحت کے بنیادی ڈھانچے میں اسی تناسب سے بہتری نہیں دیکھی گئی ہے۔ چناچہ لوگوں کے طبی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت میں آبادی تو بڑھ ہی رہی ہے لیکن معاشی عدم مساوات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بھارت کی آبادی میں اضافے کا باعث بننے والے علاقوں میں سے اکثر دیہی یا پسماندہ ہیں لیکن جن افراد کی آمندی میں اضافہ ہو رہا ہے ان میں سے زیادہ تر شہروں میں مقیم ہیں۔
اسی طرح بھارت کی 65 فیصد آبادی نے اسیکنڈری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے لیکن ان میں سے صرف ایک چوتھائی افراد اعلی تعلیم کے لیے جامعات اور کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں۔
بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غذائیت کی کمی کا شکار، غیر ہنر مند اور پسماندہ بھی ہے، جس کا مطلب ہے وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ وہاں روزگار کی شرح میں بھی 2005ء سے بتدریج کمی ہو رہی ہے اور فی کس آمدنی (پر کیپٹا انکم) جی ٹوئنٹی ممالک میں سب سے کم ہے۔
سن 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی 70 فیصد آبادی صحت مند غذا خریدنے کے وسائل نہیں رکھتی اور یہ ملک آبادی کی خوشی، آزادی صحافت اور خواتین و اقلیتوں کے تحفظ کے لحاظ سے بھی دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہی۔
اس بنا پر ژاں ڈریزے کہتے ہیں، "زیادہ آبادی ہونا ایک بات ہے، لیکن اس آبادی کے فائدہ مند ہونے کے لیے ہمیں اس کے معیار پر توجہ دینی ہوگی۔ اور اس حوالے سے بھارت اپنے آپ کو بہتر بنا سکتا ہے۔"
ماہما کپور (م ا، ع ب)