1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہلبنان

کیا الیکٹرانک آلات کو ہتھیاروں میں بدلنا قانونی ہے؟

21 ستمبر 2024

ایرانی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے کمیونیکشن آلات کو ہتھیاروں میں کس نے بدلا اور کیا یہ کارروائی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے؟ ان سوالات کا جواب ڈی ڈبلیو کی اس رپورٹ میں۔

ایک دھماکے کا منظر سی سی ٹی وی نے بھی محفوظ کیا
لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں میں ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیںتصویر: Balkis Press/ABACA/IMAGO

رواں ہفتے لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے کے بعد سے غیریقینی کی صورت حال برقرار ہے۔ ہم فقط یہ جانتے ہیں کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں 37 افراد ہلاک جب کہ تین ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔

ہیجرز ایسے ریڈیو آلات ہیں جو شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ استعمال کرتی ہے۔ فونز کے مقابلے میں پیجرز کی جیولوکیشن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ پیجرز تائیوان میں قائم ایک کمپنی تیار کرتی ہے۔ اسی لیے تائپی میں پراسیکیوٹر دفتر نے ان آلات سے متعلق تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس سے قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد نے حزب اللہ کو ارسال کیے جانے والے ان پیجرز کو راستے ہی میں انٹرسیپٹ کر کے ان میں معمولی مقدار میں دھماکا خیز مواد بھر دیا تھا۔

پیجرز میں دھماکا خیز مواد کیسے بھرا گیا؟

اسرائیلی حکومت نے اب تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جب کہ اسی دوران مختلف اور متضاد رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلغاریہ کی ایک کمپنی بھی ان پھٹنے والے پیجرز کی تیاری میں شامل تھی۔ بلغاریہ کے حکام نے تاہم ان رپورٹوں کو مسترد کیا ہے۔

پیجر دھماکے سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی گفتگو کی گئی۔ تصویر: Michael M. Santiago/Getty Images

برلن میں قائم  فری یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہلموٹ آؤسٹ کے مطابق ان حملوں سے متعلق کوئی بھی اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ''بین الاقوامی قانون میں سب سے پہلے کسی تنازعے کی نوعیت جانچی جاتی ہے کہ آیا یہ واقعی بین الاقوامی یا غیربین الاقوامی تنازعہ ہے۔ اس معاملے کی سرحد پار نوعیت کے باوجود، یہ  واضح معاملہ نہیں ہے کیونکہ بین الاقوامی تنازعہ دو ریاستوں کی مسلح افواج کے درمیان ہوتا ہے، حزب اللہ لبنان کی ریاستی مسلح فورس نہیں ہے۔‘‘

اسرائیل ذاتی دفاع کے حق پر مصر

سات اکتوبر کو اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد سے  اسرائیل غزہ پٹی میں بڑی عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اسرائیل مسلسل یہ اصرار کر رہا ہے کہ اسے ذاتی دفاع کا حق حاصل ہے۔ مگر کیا اسرائیل کا ذاتی دفاع کا حق حزب اللہ تک وسیع کیا جا سکتا ہے؟

آؤسٹ کے مطابق، ''بین الاقوامی قانون میں، ذاتی دفاع کے حق کا مطلب ہے کسی مسلح حملے کی صورت میں اپنا تحفظ کرنا ہے  اور یہ کہ وہ حملہ جاری بھی ہو۔ ظاہر ہے حزب اللہ اسرائیل کی جانب راکٹ داغ رہا ہے۔ مگر ایک طویل عرصے سے لبنان میں اسرائیلی عسکری کارروائیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس تنازعے کی ابتدا کب ہوئی۔ اس معاملے میں کئی چیزیں جنگ کی دھند میں غیرواضح ہیں۔‘‘

حزب اللہ کے پیجرز اچانک کیسے پھٹ پڑے؟

02:13

This browser does not support the video element.

ہتھیار بند گروہ کو ہدف بنانے کی اجازت

لبنانی وزارت صحت کے مطابق ملک میں پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ بون یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے شعبے کے پروفیسر شٹیفان ٹالمون کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بنیادی اصول یہ ہے کہ عسکری کارروائی صرف ہتھیار بند شخص کے خلاف ہو اور تمام ممکنہ حد تک اس کا ہدف کوئی اور نہ بنے۔‘‘  اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ٹالمون کا کہنا ہے، ''حزب اللہ کے جنگجو جنگ کے میدان میں نہ ہوں تو بھی ایک جائز ہدف ہیں، حتیٰ کہ اگر وہ پسپا ہو کر اپنی بیرکوں میں بھی چلے جائیں۔‘‘

یونیورسٹی آف جنیوا سے وابستہ مارکو ساسولی کی رائے بھی یہی ہے، ''بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قانون کے مطابق سوال یہ ہو گا کہ جو لوگ مارے گئے، کیا وہ ایک جائز ہدف تھے؟ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی مسلح تنازعے میں کسی مسلح گروہ کو کسی جاری جنگی کارروائی میں ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل دلیل دے سکتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ ایک مسلح تنازعے میں مصروف ہے۔‘‘

یہ مضمون سب سے پہلے جرمن زبان میں شائع ہوا

ع ت، ش ر، م ا (ژینس ٹوراؤ)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں