ایک عام تاثریہ ہے کہ جو ممالک تحفظِ ماحول پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں، انہیں معاشی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ ماحول دوست پالیسیاں تجارتی فائدے کا باعث بھی ہو سکتی ہیں۔
اشتہار
دنیا میں ماحولیاتی تحفظ کا موضوع سن انیس سو ستر کی دہائی سے زیر بحث آنا شروع ہوا۔ اس وقت سے یہ بحث جاری ہے کہ تحفظِ ماحول نے معاشی ترقی کو نقصان پہنچایا ہے اور مسابقتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اس کے جواب میں ماحول دوستوں کا موقف ہے کہ تحفظِ ماحول کی پالیسیوں نے تجارت کے مسابقتی عمل کے کئی دروازے کھولے ہیں اور ان کو ان ممالک پر برتری ملی ہے جو ماحول دوست پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ اب ایسا بھی سوچا جا رہا ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
جی ڈی پی کسی بھی ملک کی ترقی کی پیمائش کا بنیادی پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ معیار کیا ہے جو یہ بتائے کہ پیداوار اور خوشحالی کیسے ماپی جائے۔ جرمن شہر کیل میں واقع انسٹیٹیوٹ برائے ورلڈ اکانومی کے ذیلی ادارے گلوبل کامنز اینڈ کلائمیٹ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر وِلفرائیڈ ریکلز نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے جی ڈی پی کو ترقی کا ایک انتہائی مناسب اشاریہ قرار دیا ہے۔
ریکلز نے بھی واضح کیا کہ ماحولیاتی تنوع کو پہنچنے والے نقصان کا احساس عالمی معاشرت کو بھی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے ماحولیاتی نقصان کو ممالک کے جی ڈی پی میں براہِ راست شمار نہیں کیا جاتا۔
دوسری جانب نیشنل بیورو برائے اکنامک ریسرچ پیپرز کے مصنفین نے اپنے تجزیوں میں ظاہر کیا کہ سن 2100 تک درجہ حرارت میں 0.04 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافی حقیقت میں عالمی جی ڈی پی میں 7.22 فیصد کی گراوٹ کا باعث بنے گا۔ اس تجزیے میں بیان کیا گیا ہے کہ جو ممالک پیرس کلائمیٹ معاہدے میں درجہ حرارت میں اضافے کو 0.01 ڈگری سینٹی گریڈ ساتھ جوڑیں گے، ان کا جی ڈی پی کا نقصان 1.07 فیصد تک ہو گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی ترقی اور تحفظِ ماحول کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اور یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بیس برس قبل شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کو اچھا خیال نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب ماحول دوستی کی افزائش کے بعد یہ ایک منفعت بخش کاروبار کا روپ دھار گیا ہے۔ فی الوقت سولر انرجی میں نئی پیش رفت اور اختراعات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس پیش رفت نے نوکریوں کے نئے مواقع پیدا کیے، انرجی کے اخراجات کم ہوئے اور ماحول دوست اقتصادیات پھلنے پھولنے لگی۔
غریب ملکوں کی مجبوری
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم جرمن انسٹیٹیوٹ برائے اکنامک ریسرچ (DIW Berlin) کے شعبے کلائمیٹ پالیسی ڈیپارٹمنٹ کر سربراہ کارسٹن نوئے ہوف کا کہنا ہے کہ سولر انرجی اب ایک ٹیکنالوجی کا روپ دھار چکی ہیں اور کئی اُن ممالک میں استعمال کی جا رہی ہے جو ماحول دوست پالیسیوں کو فوقیت بھی نہیں دیتے، ویسے بھی یہ انرجی سستی بھی ہے۔ نوئے ہوف کا مزید کہنا ہے کہ اب دنیا میں توانائی کے مفید ہونے کی سوچ بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔
ماحول دوستی اور معاشی ترقی کے اشاریے امیر ملکوں کے حوالے سے تو اچھے لگتے ہیں لیکن دوسری جانب اس ساری بحث کا یہ ایک افسوسناک پہلو ہے کہ غریب اقوام کو تحفظِ ماحول اور اقتصادی ترقی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی مجبوری کا سامنا ہے۔
رابرٹ مُڈ گے (ع ح / ک م)
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔