پاکستانی صوبے پنجاب کی اسمبلی کی طرف سے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں ڈانس پارٹیوں پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ کئی طبقے اسے فن وثقافت پر ایک حملہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق پنجاب اسمبلی میں تعلیمی اداروں میں ڈانس پارٹیوں پر پابندی عائد کرنے کی قرار داد اکثریتی وٹوں سے رواں ہفتے ہی منظور کی۔ سیاست دانوں کی رائے میں ڈانس کے ذریعے مغربی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ تاہم اس قرار داد کے پاس ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت اس پر عمل در آمد بھی کرے تاہم حکومت کو اراکین صوبائی اسمبلی کی طرف سے اس معاملے پر ایک زور دار تجویز ضرور دی گئی ہے۔
پہلا کراچی ڈانس فیسٹیول
کراچی میں امن قائم ہونے کے بعد اب یہ شہر ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ کراچی آرٹس کونسل میں دو روزہ ڈانس فیسٹول جاری ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس تصویر میں حوریہ ڈھول دھمال گروپ ڈھول کی تھاپ پر اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
ڈانس فیسٹول میں معروف کلاسیکل ڈانسر نگہت چوہدری صوفی ازم کے موضوع پر اپنے گروپ کے ساتھ محو رقص ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
معروف کتھک ڈانسر عدنان جہانگیر کا ایک خوبصورت انداز جسے حاضرین نے بے حد سراہا۔
تصویر: DW/R. Saeed
میڈم نور جہاں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نوجوان کلاسیکل رقاصہ شائمہ سید نے مخصوص کتھک ڈانس پیش کیا۔
تصویر: DW/R. Saeed
صوفی میوزک پر جدید موسیقی کے فیوژن کے ساتھ وہاب شاہ اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کلاسیکل ڈانسر آمنہ شاہ پنجابی ڈھول کی تھاپ پر پلانہ ڈانس کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ڈانس فیسٹول میں رقاص ترکی کے صوفی میوزک پر عالم سماع میں محو رقص ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
شاہین ڈھول ڈانڈیا گروپ کی پرفارمس کا ایک انداز۔
تصویر: DW/R. Saeed
فرخ دربار کتھک گروپ دلفریب انداز میں رقص کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
گلگت بلتستان فوک گروپ کی پرفارمنس۔
تصویر: DW/R. Saeed
10 تصاویر1 | 10
پاکستان مسلم لیگ نون کے ممبر شیخ اعجاز جو اسمبلی رکن بھی ہے، کا کہنا ہے کہ انہیں والدین کی جانب سے شکایتیں موصول ہوئی تھیں کہ لڑکے اور لڑکیاں مل کر ڈانس کرتے ہیں جو کہ اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔
اس قرارداد کو معاشرے کے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ٹوئٹر کے ایک صارف نے لکھا،’’ تعلیمی اداروں میں ڈانس پر پابندی عائد کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعے انتہا پسند سوچ رکھنے والے ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کلاسیکی رقص، زندگی کا پُر کشش رنگ
ستائیس سالہ آمنہ مواز کلاسیکی رقص کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں صنفی مساوات اور طبقاتی نظام کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ ان کی نظر میں رقص آرٹ کی ایک خوبصورت شکل ہے جو معاشرے میں رنگ بھر دیتا ہے۔
تصویر: 2016/Saima/Aimon Photography
رقص زندگی ہے
آمنہ مواز گزشتہ سولہ برس سے کلاسیکی رقص کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کی والدہ نے بچپن میں اُنہیں رقص سکھانے کے لیے ایک اسکول میں داخلہ دلایا تھا۔ ان کے والدین کو علم نہیں تھا کہ آمنہ کو رقص سے اس قدر لگاؤ ہو جائے گا۔ آمنہ کی نظر میں رقص کے بغیر اب وہ اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔آمنہ رقص کے ذریعے مختلف معاشرتی مسائل کو پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی اجاگر کر چکی ہیں۔
تصویر: 2016/Saima/Aimon Photography
بڑھتی مذہنی بنیاد پرستی
آمنہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف مذہبی بنیاد پرستی پر مبنی ثقافتی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف اکثر فنکاروں کو جن میں رقاص بھی شامل ہیں، دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑی ہے، بلکہ عمومی طور پر بھی ثفافتی حبس بہت بڑھ چکا ہے، حتیٰ کہ بعض علاقوں میں گھریلو تقریبات میں بھی عوام شدت پسندوں کے خوف سے رقص کی محافل منعقد نہیں کرتے۔
تصویر: 2016/Saima/Aimon Photography
رقص ریاست کے خلاف جرم
آمنہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں رقص کو اکثر ریاست کے خلاف جرائم میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ ریاست اس ملک کی علاقائی ثقافتوں، تہذیبوں اور فنونِ لطیفہ کو بھی احترام اور برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
تصویر: 2016/Saima/Aimon Photography
رقاص جنسی تشدد کا شکار
آمنہ سمجھتی ہیں کہ سماجی طور پر جاگیرداری اور پدر شاہی پر مبنی روایات کی وجہ سے پاکستان میں رقص مُجروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور اکثر رقاص جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کے سماجی کردار کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: 2016/Saima/Aimon Photography
رقص کسی طور بھی کوئی معیوب عمل نہیں
آمنہ کے مطابق رقص کسی طور بھی کوئی معیوب عمل نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی استاد اندومٹھا جو دنیا بھر میں اپنے کلاسیکی رقص کے باعث جانی جاتی ہیں، سے سیکھا ہے کہ جسم کا ہر حصہ حتیٰ کہ قدرت کا یہ نظام سب حرکت میں ہے، سب کچھ رقص ہے۔
تصویر: Sadaf Raza
انتخابات تبدیلی کا ایک ذریعہ
اِس کلاسیکی رقاصہ کا تعلق ’عوامی ورکرز پارٹی‘ نامی سیاسی جماعت سے بھی ہے جو آمنہ کے مطابق معاشرے میں قائم طبقاتی نظام اور صنفی جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ وہ سن 2015 میں اس جماعت کے ٹکٹ پر اسلام آباد میں مسیحی کی ایک آبادی، فرانس کالونی، سے الیکشن بھی لڑ چکی ہیں۔آمنہ الیکشن میں توکامیاب نہ ہوسکی تھیں لیکن ان کی اس کاوش کو پاکستانی روشن خیال حلقوں کی جانب سے سراہا گیا تھا۔
تصویر: Awami Workers Party/Fahad Desmukh
6 تصاویر1 | 6
پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے،’’ اسکولوں میں ڈانس پر پابندی عائد کرنا فن و ثقافت پر حملہ ہے۔ اس اداریے میں مزید لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے بچے مشکل حالات کے باعث بہت جلدی بڑے ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اپنے جذبات کا اظہار نہ کر پا کر کیا وہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہو جائیں گے ؟
تھیٹر ڈائریکٹر اور سرگرم کارکن نعیمہ این بٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ رقص محبت کے اظہار کا ایک آلہ ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے نئی راہیں بھی کھولتا ہے۔ انہوں نے فن کی اس صنف کو ایک تیز دھار چھری کے مانند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’چھری سے کسی کا گلہ بھی کاٹا جا سکتا ہے اور پھل بھی۔ لیکن اس کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔ رقص بھی اسی طرح ہے، اسے اچھے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور برائی کے لیے بھی۔‘‘