کیا تعلیم یافتہ گھریلو عورت معاشرے کا فعال کردار نہیں؟
30 اپریل 2021ایسے کئی دیگر فقرے بھی ہیں، جو آپ کو روزانہ کی بنیاد پر سننے کو ملتے ہیں۔ ان سے شاید یہ مراد ہے کہ تعلیم یافتہ گھریلو عورت معاشرے کا فعال کردار نہیں ہے۔ اس کی تعلیم کسی کام کی نہیں ہے۔ یہ وہ عمومی رویہ ہے، جس کا سامنا پڑھی لکھی گھریلو خواتین کو بہت جگہ کرنا پڑتا ہے۔
بعض خواتین شادی کے بعد اپنی بہترین جاب چھوڑ دیتی ہیں، مکمل توجہ سے بچے پالتی ہیں، مکان کو گھر بنا دیتی ہیں لیکن عمر کے ایک خاص حصے میں جا کر انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ انہوں نے کوئی بہت بڑی غلطی کر لی ہے، جس کے باعث وہ ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
جب کہ انہوں نے ایک بھرپور نسل اگر دنیا کو دی ہے تو وہ ایک فعال معاشرتی کردار بن چکی ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ تعلیم ہمیں گھر سے دور کرے اور گھر سے باہر ہی ہماری صلاحیتوں کو ہمیں منوانا ہے۔ جیسے ہر پھل ہر پھول اپنی الگ افادیت و مہک رکھتا ہے یونہی ہر تعلیم یافتہ عورت اپنی تعلیم کو مناسب جگہ استعمال ضرور کر رہی ہوتی ہے، چاہے وہ گھر ہو یا باہر۔
بعض خواتین گھریلو دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ، گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آن لائن بزنس اور جاب کر رہی ہیں۔ بعض بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیمی صلاحیت سے ایک نسل پروان چڑھا رہی ہیں، بعض اپنے ہی بچوں پر مکمل توجہ دے کر ان کے اور اپنے خواب کی تعبیر میں مصروف ہیں۔ اور بعض نے قلم کتابوں سے دوستی کر لی ہے اور لکھ کر انسانی شعور میں اپنے حصے کے چراغ روشن کر رہی ہیں۔
اسی طرح بعض کی تعلیم گھر کے سکون میں بدل جاتی ہے اور وہ خاندان والوں اور عزیروں کے لئے معاون بن جاتی ہیں۔ کسی کو روشن راہ بتا دینا بھی علم ہے، کسی کو اچھا مشورہ دے دینا بھی معاشرتی اقدار کی معاونت ہے، کسی کو نرم لہجہ سے متعارف کروا دینا بھی ہنر مندی ہے۔ گویا تعلیم کبھی بھی کہیں بھی، کسی بھی رنگ،کسی بھی صورت میں انسان کے کام آ سکتی ہے۔
اگرگھر یلو پڑھی لکھی عورت معاشرے کا فعال کردار نہیں ہے تو رشتہ ڈھونڈتے وقت یہ کوشش کیوں کی جاتی ہے کہ لڑکی پڑھی لکھی بھی ہو۔ جن گھرانوں میں تعلیم نہیں ہے، خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے یا جن کے لڑکے کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ ہیں وہ بھی تعلیم یافتہ عورت کا رشتہ کیوں تلاش کرتے ہیں؟ چاہے وہ جاب کرتی ہو یا نہ کرتی ہو ۔
اس لیے کہ وہ اپنے خاندانوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں، تعلیم کی شمع روشن کرنا چاہتے ہیں۔
گویا انسان لاشعوری طور پہ ہی سہی تعلیم کی اہمیت اور نور کی افادیت سے آگاہ ہے۔
ہمارے ہاں تعلیم کثیر نظامی ہے، جس کو ایک تعلیم یافتہ عورت سمجھ سکتی ہے اور کس نظام کو کیسے لے کر چلنا بہتر ہے۔ وہ اس کا فیصلہ کسی حد بہتر کر سکتی ہے ورنہ ایک ناخواندہ عورت کے لئے، بچے کا اسکول چلے جانا ہی کافی ہے۔ وہ بچے کو سکول بھیج کر، باقی ساری ذمہ داری اساتذہ پر ڈال دیتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ اس کا بچہ بہت بڑا افسر بن جائے گا۔
عمومی طور پر پڑھی لکھی گھریلو عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کو اساتذہ کے ساتھ، بچوں کا ساتھ دینا ہے اور بچے کو مناسب وقت بھی دینا ہے لہٰذا وہ معاشرے کا کسی صورت بھی غیر اہم کردار نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں خواتین ڈاکٹر بننے کے بعد ملازمت کیوں نہیں کرتیں؟
کیا اب پھر بیٹیاں زندہ دفن کر دی جائیں؟
پہلا سوال ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر کیا ہے؟
مشہور کہاوت ہے کہ ''مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، میں تمہیں تعلیم یافتہ قوم دوں گا۔‘‘ اس میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ پڑھی لکھی عورت کا نوکری کرنا، جاب کرنا بہت ضروری ہے، گھر سے نکلنا بہت ضروری ہے۔ نسلوں کے لیے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ہی کافی ہے۔ اگر وہ اپنی تعلیم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اگلی نسلوں تک اپنی تمام تر کاوشوں کو پہنچا دے تو تعلیم کا اس سے بہتر استعمال کوئی نہیں ہو سکتا۔
لہذا ایک تعلیم یافتہ عورت ہر صورت معاشرے کا ایک فعال کردار ہے، اس کو اتنا غیر اہم نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس گھریلو عورت کو اتنا ذہنی دباو و ذہنی اذیت دینی چاہئے کہ وہ خود کو کمتر محسوس کرنے لگے۔ ہمیں اس حوالے سے اپنی سوچ میں مثبت نظر ثانی کر نےکی ضرورت ہے کہ ایک تعیلم یافتہ گھریلو عورت بھی معاشرے کا بھر پور اور فعال کردار ہے۔