جرمنی پر خلیج فارس میں فوج بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھتا ہوا
28 جولائی 2019
جرمن حکومت پر خلیج فارس میں یورپی بحری مشن میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ یورپی بحری مشن بھیجنے کی تجویز برطانیہ نے گزشتہ پیر کے روز دی تھی، تاہم اب تک برلن حکومت اس مشن سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔
اشتہار
برطانیہ نے جبرالٹر میں ایک ایرانی بحری جہاز کو غیر قانونی طور پر خام تیل شام لے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے تحویل میں لے رکھا ہے۔ ایران نے اس عمل کو 'قزاقی‘ قرار دیا۔ پھر ایران نے برطانوی پرچم والے ایک آئل ٹینکر کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان واقعات کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی مسلسل جاری ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے برطانیہ نے تجویز دی کہ خلیج فارس میں بحری جہازوں کے تحفظ کے لیے یورپی بحری مشن روانہ کیا جانا چاہیے۔
جرمنی کہاں کھڑا ہے؟
جرمنی نے ابھی تک خلیج فارس میں اپنی بحری فوج بھیجنے سے نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی اس کی حامی بھری ہے۔ جمعرات کے روز جرمنی کی نئی وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارنباؤر نے بھی اس بات کا عندیہ دیا کہ ایرانی ساحلوں کے قریب یورپی بحری مشن میں جرمنی کی شمولیت ممکن ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ابھی ایسا کوئی بھی منصوبہ بالکل ابتدائی سطح پر ہے۔ جمعے کے روز فنکے میڈیا گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے ہائیکو ماس نے کہا، ''جرمنی مشن میں حصہ لے گا نہیں اس کا فیصلہ تبھی کیا جا سکتا ہے جب اس مشن کی شکل واضح ہو گی۔‘‘ انہوں مزید کہا کہ جرمنی یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ مشن یورپی یونین کی نگرانی میں ہو گا، اقوام متحدہ کی یا کسی اور بین الاقوامی تنظیم کی اور یہ کہ کیا اس بحری مشن کو کسی جنگ کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا۔
ماس نے یہ بھی تصدیق کی کہ انہوں نے اس ضمن میں اپنے نئے برطانوی ہم منصب ڈومینک راب سے بھی گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی چاہتا ہے کہ فرانس، برطانیہ اور جرمنی مل کی ایک مشترکہ فیصلہ کریں جو امریکا کے اختیار کردہ راستے سے مختلف ہو۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت پابندیوں سمیت کئی دیگر طریقوں سے دباؤ بڑھانے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا، ''ہم زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی امریکی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘‘
جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں بھی اس حوالے سے متضاد آرا رکھتی ہیں۔ چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو یورپی بحری مشن میں جرمن بحریہ کی شمولیت کی حامی ہے لیکن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایسے کسی بھی عمل کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ایس پی ڈی کے عبوری شریک سربراہ رولف مٹزینش نے اتوار کے روز ایک مقامی اخبار سے گفتگو میں کہا، ’’ایسے خطے میں اپنی فوج بھیجنا، جہاں نئی جنگوں کے خطرات منڈلا رہے ہوں، کیا یہ سمجھدارانہ اقدام ہو گا۔‘‘
دوسری جانب امریکا میں جرمنی کے سابق سفیر اور میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موجودہ سربراہ وولف گانگ اشینگر نے بھی آج اتوار کے روز خلیج فارس کے یورپی بحری مشن میں جرمنی کی شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے اسے جرمنی کی 'اخلاقی ذمہ داری‘ قرار دیا۔ اشینگر کا کہنا تھا کہ 'جرمنی سے زیادہ کوئی دوسرا ملک آزادانہ بین الاقوامی شپنگ پر انحصار نہیں کر رہا‘ اس لیے جب خلیج فارس میں دفاعی مشن کی بات ہو رہی ہو تو جرمنی کو اس بات کو 'کونے میں بیٹھ کر‘ نہیں دیکھنا چاہیے۔
ش ح / ع ح (بیجمن نائٹ)
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔