1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

کیا اولاف شولس کا دورہ چین یورپی یونین کے موقف سے مختلف ہے؟

4 نومبر 2022

جرمن چانسلر کا دورہ چین ایسے وقت ہو رہا ہے جب برلن سے یہ مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ جارحانہ اور آمرانہ بیجنگ کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔ ادھر اولاف شولس نے آج بیجنگ میں چینی صدر سے ملاقات کی ہے۔

Bundeskanzler Scholz trifft Xi Jingping
تصویر: Kay Nietfeld /AFP

جرمن چانسلر اولاف شولس  اپنے اعلیٰ ترین دورے پرآج چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے۔ جرمن اہم کاروباری شخصیات کا بھی ایک اعلی سطحی وفد ان کے ساتھ ہے۔ کووڈ کی وبا اور یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے کسی بھی یورپی رہنما کا یہ بیجنگ کا پہلا دورہ ہے۔

جرمنی میں غیر ملکی جاسوسی کی بڑھتی سرگرمیاں، جرمن انٹیلیجنس

 جمعے کے روز بیجنگ کے ایک روزہ دورے کے دوران جرمن چانسلر شولس نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی چیانگ سے بھی بات چیت کی۔ جرمن رہنما نے روانگی سے قبل چینی رہنماؤں کے ساتھ تجارت اور انسانی حقوق سے لے کر تائیوان اور یوکرین پر روسی حملے سمیت تمام امور پر ''صاف و شفاف تبادلے'' کا وعدہ کیا تھا۔ 

کیا یورپی محققین چینی فوج کی مدد کر رہے ہیں؟

چینی صدر شی جن پنگ کے تیسری بار اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد کسی بھی عالمی رہنما کا یہ پہلا دورہ ہو رہا ہے۔ جمعرات کے روز جرمن اخبار 'پولیٹیکو' کے لیے اپنے ایک مضمون میں، شولس نے لکھا تھا کہ ''آج کا چین پانچ یا 10 برس پہلے کے جیسا چین نہیں ہے، اور جیسا کہ چین بدل رہا ہے، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اور برتاؤ کا طریقہ کار بھی بدلنا چاہیے۔''

اہم دھاتیں: یورپی یونین کا چین پر خطرناک حد تک انحصار

جرمن چانسلر کے ساتھ، جو اعلیٰ سطحی کاروباری وفد بیجنگ پہنچا ہے، اس میں ووکس ویگن، بی اے ایس ایف اور ڈوئچے بینک جیسی کمپنیوں کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دورے کا اہم مقصد تجارت اور معاشی سطح پر تعاون کو فروغ دینا  ہے۔

ہوا سے توانائی، لاکھوں نوکریاں پیدا ہوں گی

اسٹریٹیجک تشویش پر کاروباری مفادات کو ترجیح؟

تاہم ان کے اس دورے پر جرمنی اور یورپی یونین میں ایک طبقہ اس بات پر تنقید کر رہا ہے کہ شولس اسٹریٹیجک خدشات اور یورپی یونین کے اتحاد پر قلیل مدتی کاروباری مفادات کو ترجیح دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیرس میں انسٹیٹیوٹ مونٹائیگن میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر میتھیو ڈوکاٹیل نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، اس سفر کو آگے بڑھانے کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ ان کی، ''جرمنی کے قلیل مدتی کاروباری مفادات پر توجہ زیادہ ہے، جبکہ اس میں یورپی یونین کے اتحاد کے کسی بھی خیال کو فوقیت نہیں دی گئی۔'' 

اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹس پارٹی میں خارجہ پالیسی کے ماہر نوربرٹ روٹجن نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ''تمام اعلانات کے برعکس، شولس کی حکومت بڑی کمپنیوں کے لیے قلیل مدتی منافع پر داؤ لگاتی رہتی ہے، جبکہ چین کی نسبت طویل مدتی انحصار کے اخراجات کو نظر انداز کر رہی ہے۔''

حال ہی میں جرمن چانسلر نے کابینہ اور مخلوط حکومت کے بعض اتحادیوں کے اعتراضات کے باوجود چین کی سرکاری شپنگ کمپنی 'کاسکو' کو ہیمبرگ کے پورٹ ٹرمینل میں سے ایک میں 24.9 فیصد حصص خریدنے کی اجازت دی تھی اور اس متنازعہ معاہدے کو آگے بڑھنے کے کچھ دن بعد ہی انہوں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔

اس معاہدے نے اس طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے کہ بیجنگ براعظم یورپ کے اہم بنیادی ڈھانچے پر بتدریج اپنا کنٹرول بڑھا رہا ہے۔

حال ہی میں جرمن چانسلر نے کابینہ اور مخلوط حکومت کے بعض اتحادیوں کے اعتراضات کے باوجود چین کی سرکاری شپنگ کمپنی 'کاسکو' کو ہیمبرگ کے پورٹ ٹرمینل میں سے ایک میں 24.9 فیصد حصص خریدنے کی اجازت دی تھی اور اس متنازعہ معاہدے کو آگے بڑھنے کے کچھ دن بعد ہی انہوں نے چین جانے کا فیصلہ کیاتصویر: Kay Nietfeld /AFP

یورپی یونین میں داخلی منڈی کے کمشنر تھیری بریٹن نے اسی ہفتے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یورپی یونین کے ممالک کو ''جب بھی چینی سرمایہ کاری کی منظوری دینی ہو، تو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں انتہائی چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔''

چین کے بڑھتے رسوخ و اثرات پر شکوک و شبہات

بالٹک ممالک اور بعض سابق سوویت بلاک کے ممالک بھی یورپ میں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ پر، خاص طور پر ماسکو کے ساتھ بیجنگ کی ''غیر محدود''  دوستی کے باعث، شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔

گزشتہ ماہ برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں چین کے ساتھ تعلقات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، بالٹک ریاستوں نے بیجنگ کے ساتھ ''یک آواز'' کے ساتھ بات کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔

اسٹونیا کے وزیر اعظم کاجا کالس نے برسلز میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا، ''یہ ضروری ہے کہ ہم چین کے ساتھ الگ الگ معاہدے نہ کریں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بطور یونین ہم کمزور ہیں۔''

یورپی یونین کے رکن ممالک کے اندر اتحاد کے حوالے سے لاتویا کے وزیر اعظم کرسجنیس کارینز کا کہنا تھا کہ ''چین کے ساتھ ہم بہتر طور پر اس وقت ڈیل کر سکتے ہیں جب ہم 27 ایک ساتھ ہوں، نہ کہ جب ہم بس ایک اور تنہا ہوں۔''

چین میں یورپی چیمبر آف کامرس کے صدر جورگ ووٹکے نے کہا کہ روس کے ساتھ یورپی تاریخ اور بیجنگ کے ساتھ ماسکو کی قریبی شراکت داری پر غور کیا جائے تو، بالٹکس ممالک کا چین کے بارے میں نظریہ قابل فہم ہے۔

تاہم انہوں نے مزید کہا، جب یورپی یونین-چین تعلقات کی بات آتی ہے تو اس میں یک طرفہ انحصار کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''روس پر یورپی یونین کا انحصار دو اہم مصنوعات، گیس اور تیل پر تھا۔ جب کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات مختلف ہیں اور چین یورپی یونین پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یورپ بھی چین میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کرتا ہے۔ تو میں اس میں انحصار کی کوئی حقیقی بات نہیں دیکھتا۔''

متحدہ محاذ کلیدی اہمیت کا حامل

بعض حلقے یہ دلیل دیتے ہیں کہ شولس کا تنہا بیجنگ کا دورہ چین کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں ان کا ہاتھ کمزور ہو سکتا ہے اور اس کے بجائے انہیں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں  کے ساتھ بیجنگ کا سفر کرنا چاہیے تھا۔ اس سے یورپی یونین کے اتحاد کا مظاہرہ ہوتا۔

تاہم ماکروں اور شولس چین سے متعلق پالیسی پر ایک ساتھ رہنے کے لیے اب تک محض جدوجہد ہی کرتے رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے نامعلوم فرانسیسی اور جرمن حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماکروں نے شولس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایک ساتھ بیجنگ جائیں تاکہ یورپی یونین کے اندار اتحاد کا اشارہ مل سکے اور چین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

لیکن ذرائع کے مطابق جرمن چانسلر نے ماکروں کی تجویز مسترد کر دی۔

برلن میں مقیم یورپ چین تعلقات کے تجزیہ کار نوحا بارکن کا کہنا ہے کہ ''بیجنگ میں الگ سے سفر کرنے کا اقدام مثالی نہیں تھا۔'' انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نومبر میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں چینی صدر کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں زیادہ معنی خیز ہوں گی۔''

انہوں نے مزید کہا ''بیجنگ کے لیے یہ الگ الگ دورے یورپ اور اہم اتحادیوں کے درمیان شکوک و شبہات کو جنم دیں گے کہ جرمنی اور فرانس اپنے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔''

''لہٰذا شولس اور میکراں کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ بیجنگ کو جرمنی اور فرانس کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ متحدہ محاذ تیار کرنے کی برسوں کی کوششوں کے بعد یورپ کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔''

ص ز/ ج ا (پرینکا شنکر)

چین سے جرمنی تک سفر کرنے والی مال بردار ریل گاڑیاں

01:29

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں