1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتآرمینیا

جنگ زدہ ممالک میں گھریلو تشدد

15 نومبر 2025

آرمینیا میں 2024 کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں 168 فیصد اضافہ ہوا، جسے انسانی حقوق کے کارکنان 2020 کی جنگ کے زخموں کا تسلسل قرار دے رہے ہیں۔ یہ اضافہ دنیا بھر میں دیکھے جانے والے ایک وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

وہ ممالک جنہوں نے جنگ کا سامنا کیا ہے، وہاں گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے
وہ ممالک جنہوں نے جنگ کا سامنا کیا ہے، وہاں گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: Thomas Trautschel/photothek/IMAGO

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آرمینیا نے شدید تشدد کا سامنا کیا ہے۔ قفقاز کے خطے میں واقع یہ چھوٹا سا ملک، جس کی آبادی تقریباً 30 لاکھ ہے، 2020 میں آذربائیجان کے ساتھ نگورنو کاراباخ کے متنازع علاقے پر ہونے والی جنگ میں شکست سے دوچار ہوا۔ اس کے باوجود اس خطے میں رہنے والے بہت سے نسلی آرمینی باشندے وہیں مقیم رہے۔

جنگ کے بعد کے برسوں میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متعدد خونی سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ پھر ستمبر 2023 میں آذربائیجان نے نگورنو کاراباخ پر مکمل قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد آرمینیوں کا بڑے پیمانے پر انخلا ہوا۔ ان لوگوں نے اس وقت تک نو ماہ کے محاصرے اور جنگ کا سامنا کیا تھا۔

ان جنگوں میں لڑنے والے بہت سے آرمینی مرد گھر واپس آئے تو وہ ذہنی اور جذباتی طور پر شدید صدمات میں مبتلا تھے۔ آخرکار انہوں نے موت اور تباہی کے بے شمار مناظر دیکھے تھے۔ لیکن انہیں کسی قسم کی نفسیاتی مدد یا بحالی فراہم نہیں کی گئی۔ ان کی یہ نازک حالت دیگر مسائل سے بھی بوجھل ہو گئی، جن میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان اب بھی غیر حل شدہ تنازع کی غیر یقینی صورتِ حال شامل ہے۔

جنگ سے متاثرہ خواتین کو تشدد کی زیادہ سنگین صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص ان خواتین میں جو پناہ گزین، بے گھر یا واپس آنے والی ہیںتصویر: Rafael Ben-Ari/Chameleons Eye/Newscom World/IMAGO

صدمے اور ذہنی صحت کی سہولتوں کی کمی کے باعث تشدد میں اضافہ

یہ تمام عوامل گھریلو تشدد میں اضافے کا باعث بنے۔ اگرچہ ایسے جرائم اکثر ثقافتی یا سماجی بدنامی کے خوف سے رپورٹ نہیں کیے جاتے، تاہم قومی پراسیکیوٹر کے دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں گھریلو تشدد کے واقعات میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 2018 میں آرمینیا کے گھریلو تشدد کے قانون کے نفاذ کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔

پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق، گھریلو تشدد سے متعلق قتل کے واقعات 2023 میں تین سے بڑھ کر 2024 میں تیرہ تک پہنچ گئے۔

پراسیکیوٹر کے دفتر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اضافے کی کوئی باقاعدہ تجزیاتی وضاحت دستیاب نہیں ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے محافظوں کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ 2020 کی جنگ اور اس کے بعد کے نفسیاتی اثرات سے جڑا ہوا ہے۔

یہ رجحان دنیا بھر میں دیکھے گئے اس پیٹرن سے مطابقت رکھتا ہے کہ جنگ کے بعد پانچ برس تک گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔

یریوان میں قائم ویمنز سپورٹ سینٹر کی نمائندہ زارا ہووانیسیان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''جنگ کے تین سے پانچ سال بعد تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بنیادی وجوہات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(پی ٹی ایس ڈی) جنگ کے سماجی و معاشی اثرات، اور مستقل و منظم مدد کے نظام کی کمی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق فوجیوں میں صورتحال سے نمٹنے کے لیے شراب نوشی کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جو ان کے مطابق ''تشدد کے بڑھنے والے عوامل میں سے ایک اہم عنصر‘‘ ہے۔

جنگ کے بعد کے برسوں میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متعدد خونی سرحدی جھڑپیں ہوئیںتصویر: Alexander Patrin/Tass/dpa/picture alliance

آرمینیا: 2025 میں گھریلو تشدد کے واقعات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ

ایک اور انسانی حقوق کی کارکن، کارین داوتیان، جو ویمنز رائٹس ہاؤس این جی او کی بانی اور سربراہ ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرمینیا میں گھریلو تشدد کے کیسز میں اضافے کی ایک جزوی وجہ ملک بھر میں خواتین کو ہدف بنا کر چلائی جانے والی ماہانہ آگاہی مہمات بھی ہیں۔ ان کے مطابق، خواتین کے اعتماد میں اضافہ اور مدد فراہم کرنے والے مراکز اور این جی اوز پر بڑھتا بھروسہ زیادہ کیسز رپورٹ ہونے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

داوتیان کے مطابق، آرمینیا کے حکام سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 30 ستمبر 2025 تک گھریلو تشدد کے 1,588 واقعات درج کیے جا چکے تھے، جو 2024 کے 1,360 کیسز سے پہلے ہی زیادہ ہیں۔

نگورنو کاراباخ کے پناہ گزینوں کی صورتِ حال خاص طور پر سنگین ہے۔ 2023 کے بڑے پیمانے پر انخلا کے دوران ان لوگوں نے اپنی زندگیاں، گھر اور وسائل پیچھے چھوڑ دیے اور آرمینیا یا اس کے باہر دوبارہ زندگی شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔ انخلا کے فوراً بعد ہی انسانی حقوق کے کارکنوں نے خبردار کیا تھا کہ نوکریوں کے خاتمے، تنگ دستی، اور نفسیاتی دباؤ کے باعث پناہ گزینوں میں صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اپنے بے گھر ہونے کے دو سال سے زیادہ عرصے بعد بھی ان کی حالت بدستور پیچیدہ ہے۔ ویمنز سپورٹ سینٹر کی زارا ہووانیسیان کے مطابق، ''ان میں سے بہت سے مرد فوجی خدمات میں رہے ہیں، انہوں نے مسلح جھڑپیں دیکھیں لیکن انہیں کبھی کوئی مدد نہیں ملی۔ خواتین ہمیشہ خوف اور بقا کے درمیان جیتی رہیں، برسوں خاموش رہیں، اور اب جب وہ سب کچھ کھو چکی ہیں تو وہ مادی اور معاشی مشکلات میں بھی مبتلا ہیں۔ یہ تمام عوامل کیسز کی شدت کو بڑھا رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے پناہ گزینوں میں پائے جانے والے ''شدید صدمات‘‘ سے نمٹنے کے لیے مربوط حکومتی ردعمل کی کمی کی بھی نشاندہی کی۔

جنگ زدہ دیگر ممالک میں گھریلو تشدد

وہ ممالک جنہوں نے جنگ کا سامنا کیا ہے، وہاں بھی گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے اعداد و شمار کے مطابق، کئی مشرقی یورپی ممالک میں، جنہوں نے جنگوں کا سامنا کیا، جنگ کے بعد کے پانچ برسوں میں گھریلو تشدد کی شرح دوگنی ہو گئی، جب کہ جنگ سے پہلے، دورانِ جنگ اور پانچ سال بعد کے اعداد و شمار کے مقابلے میں اضافہ نمایاں تھا۔

یہ اعداد و شمار اپریل سے ستمبر 2018 کے درمیان کیے گئے ایک سروے سے حاصل ہوئے، جو البانیا، بوسنیا و ہرزیگووینا، مونٹی نیگرو، شمالی مقدونیہ، سربیا، مالدووا، یوکرین اور کوسوو میں کیا گیا تھا۔

فیمینسٹ نیٹ ورک ویمن اگینسٹ وائلنس یورپ نے اپنی 2022 کی رپورٹ میں نشاندہی کی کہ جنگی تنازعات میں حصہ لینا اور جنگی صدمات کا سامنا کرنا تشدد کے واقعات کے لیے ایک 'ٹرِگر‘ ثابت ہو سکتا ہے۔

تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنگ کے بعد گھریلو تشدد نہ صرف مقدار میں بڑھتا ہے بلکہ اس کی شدت بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

او ایس سی ای کی 2020 کی رپورٹ بھی اس کی تصدیق کرتی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ''جنگ سے متاثرہ خواتین کو تشدد کی زیادہ سنگین صورتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص ان خواتین میں جو پناہ گزین، بے گھر یا واپس آنے والی ہیں۔‘‘

اسی او ایس سی ای سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مسلح تنازعات میں حصہ لینے والے مردوں پر جسمانی اور نفسیاتی اثرات طویل عرصے تک برقرار رہتے ہیں، اور مالی مشکلات کی وجہ سے ان میں شراب نوشی اور منشیات کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے، یہ تمام عوامل گھریلو تشدد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی تنظیم یو این ویمن میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے شعبے کی سربراہ کالیوپی منگیریو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تشدد کے اس چکر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے تحفظ، قیادت اور شمولیت کو انسانی ہمدردی، امن اور بحالی کی کوششوں کے مرکز میں رکھا جائے۔ خواتین اور لڑکیوں کی سلامتی، حقوق اور وقار کے بغیر کوئی پائیدار امن یا بحالی ممکن نہیں۔

ج ا ⁄  ص ز (آرشالوئیس بارسغیان)

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں