کیا جوہری ڈیل بچ سکتی ہے؟ ایرانی وزیرخارجہ ماسکو میں
14 مئی 2018
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف جوہری ڈیل سے امریکا کے اخراج کے بعد غیرملکی دورے پر ہیں۔ اختتام ہفتہ پر بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد پیر کو وہ ماسکو پہنچ رہے ہیں، جب کہ روس کے بعد ان کی اگلی منزل برسلز ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایران کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس فیصلے کے تناظر میں عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں سے ایرانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جائے۔ چین، روس اور یورپی یونین اب بھی اس معاہدے کو فعال رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔
محمد جواد ظریف نے بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد اس امید کا اظہار کیا کہ جوہری معاہدے کی بقا کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کر لی جائے گی۔ اتوار کے روز بیجنگ میں جواد ظریف نے کہا کہ وہ اس ڈیل کے ’مستقبل کے واضح ڈیزائن‘ کے حوالے سے خاصے پرامید ہیں۔
روسی صدر ولادمیر پوٹن نے بھی اس حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے گفت گو کی ہے۔ انہوں نے امریکی فیصلے پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار بھی کیا۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر یورپی یونین بھی برہم ہے جب کہ چین اور روس کی جانب سے بھی اس پر تنقید کی جا رہی ہے۔
ایک غیرسرکاری تنظیم پی آر آئی کے مشیر اندرے باکلیتسکی کے مطابق، ’’برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پر کیمیائی حملے کے بعد روس اور یورپ کے درمیان تعلقات میں شدید کشیدگی اور سفارتی رابطوں کا انتہائی کم سطح پر ہونا، بتاتا تھا کہ شاید یورپ اور روس ایک دوسرے سے کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کریں گے، تاہم ایران کے معاملے نے فریقین کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یورپ چاہتا ہے کہ وہ ایران کو اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے سے روکے۔
اتوار کے روز امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ واشنگٹن اب بھی چاہتا ہے کہ وہ ایران کے معاملے پر یورپ کے ساتھ گفت گو کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے، جو نہ صرف اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے بلکہ اس کے میزائل پروگرام پر بھی قدغن لگائے۔
دوسری جانب اے ایف پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یورپی یونین اور روس کے مابین ایرانی جوہری معاہدے کے تحفظ کے لیے معاملات طے پا جاتے ہیں، تو اس سے مشرقِ وسطیٰ خصوصاﹰ شامی تنازعے میں ماسکو کی پوزیشن مزید مضبوط ہو سکتی ہے۔
ایران: عید نوروز سے جشن بہاراں تک
مارچ کے آخری ایام میں ایران کے تمام شہروں میں نئے شمسی سال اور بہار کی آمد کی بھرپور تیاریاں کی جاتی ہیں۔ 20 مارچ کو عید نوروز سے 29 مارچ کے جشن بہاراں تک یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ ان تیاریوں کی کچھ تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW
ایران میں عید نوروز منانے کے بعد عوام بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کی تیاریاں کرنے کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہے۔
تصویر: Tasnim/M. Hossein Movahedinejad
یہاں کی مارکیٹوں میں دستیاب خوبصورت گھریلو آرائشی اشیا کی بہتات ہے جو ان خاص دنوں میں خریداروں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔
تصویر: Tasnim/Mohammad Nesaei
یہاں صرف شہروں میں نہیں بلکہ چھوٹے علاقوں اور گاؤں میں بھی اتنی ہی زور و شور سے تیاریاں کی جاتی ہیں۔
تصویر: Tasnim/Saeid Toluei
تہران میں پھولوں کی یہ مارکیٹ اس ملک میں موجود کئی مارکیٹوں میں سے ایک ہے جہاں سے نئے موسم کے پودے خرید کر لوگ اپنے گھروں میں سجاتے ہیں۔
تصویر: Tasnim/Naser Jafari
گزشتہ برس نومبر میں زلزلے سے شدید متاثر ہونے والے صوبے کرمان شاہ میں تباہ کاریوں کی باقیات اب تک موجود ہونے کے باوجود نو روز منایا جاتا ہے۔
تصویر: Tasnim/Masoud Shahrestani
تہران کے ایک بازار میں خریداروں کا رش۔
تصویر: Tasnim/M. Hossein Movahedinejad
بہار کو خوش آمدید کہنے کے لیے گھروں کی صفائیاں کی جاتی ہیں۔
تصویر: Mehr/Faezeh Salimi
گھروں کی صفائیاں، انہیں سجانے اور خریداری پر ایک اندازے کے مطابق 80 سے ایک لاکھ ایرانی کرنسی یعنی تومان کی لاگت آتی ہے۔
تصویر: Fars/Zahra Damirchi
یہاں کی مارکیٹوں میں سردیوں کی سوغات یعنی کئی اقسام کے بادام، اخروٹ، مغز، اخروٹ اور گری وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
تصویر: Fars/Sajjad Darvishi
اس موقعے پر لوگ اپنے بچھڑے پیاروں کو بھی یاد رکھتے ہیں اور ان کی قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں اور ان کے لیے دعا کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
تصویر: Tasnim/M. Hasan Aslani
نوروز کے تہوار کے اختتام پر ملک کے اکثر شہروں میں خوبصورت نقشین دیوقامت انڈوں کے مجسمے رکھے نظر آتے ہیں جو یہاں شروع ہونے والے ایک نئے تہوار کی علامت ہیں۔
تصویر: Fars/Behzad Alipour
11 تصاویر1 | 11
جمعے کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل سوچی شہر میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کر رہی ہیں۔ جب کہ رواں ماہ کے اختتام پر فرانسیسی صدر امانویل ماکروں بھی ایک اقتصادی فورم میں شرکت کے لیے سینٹ پیٹرزبرگ میں ہوں گے اور اس موقع پر وہ پوٹن سے ملاقات بھی کریں گے۔ سوچی شہر میں پوٹن بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ یوکیا امانو سے بھی ملنے والے ہیں۔ ایران نے دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر یورپی یونین ایرانی اقتصادیات اور سلامتی کو یقینی بنانے سے متعلق ٹھوس ضمانتیں فراہم نہیں کرتی، تو ایران ایک مرتبہ پھر صنعتی پیمانے پر یورینیم کی افزودگی شروع کر سکتا ہے۔