چینی صوبے ہوبے میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین نے آج بدھ انیس فروری کو اسلام آباد میں احتجاج کے دوران مطالبہ کیا کہ ان کے بچوں کو فی الفور واپس پاکستان لایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔
اشتہار
چینی شہر ووہان میں پھوٹنے والی کورونا وائرس کی وبا اب تک نہ صرف چین کے کئی علاقوں میں بلکہ دنیا کے 30 سے زائد ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔
چینی حکومت نے صوبے ہوبے کو گزشتہ کئی ہفتوں سے الگ تھلگ کر رکھا ہے۔ وہاں سے نہ تو لوگوں کو نکلنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کوئی وہاں جا سکتا ہے۔
اس چینی صوبے کی کئی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبہ بھی کافی بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد زیادہ تر ممالک وہاں سے اپنے طلبہ اور شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے نکال چکے ہیں۔ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر ووہان کے علاوہ صوبے ہوبے کے کئی دیگر شہروں میں بھی پاکستانی طلبہ کی کافی بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستانی حکام کی طرف سے تاہم ابھی تک ایسے طلبہ کو متاثرہ چینی علاقوں سے نکالنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی ویڈیوز میں صوبے ہوبے میں پھنسے پاکستانی طلبہ کی طرف سے وہاں موجود مسائل اور وطن واپسی کے سلسلے میں چین میں موجود پاکستانی سفارت خانے اور پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی سے متعلق شکایات سنی جا سکتی ہیں۔
چین سے کن ممالک کے شہریوں کا انخلا کیا گیا؟
چین میں کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کے پھیلاؤ کے بعد وہاں مقیم غیر ملکی شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ کئی ممالک نے چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کا انخلا کیا ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
فرانسیسی شہریوں کی چین سے واپسی
فرانس کے شہریوں کو ووہان سے واپس فرانس ایک خصوصی پرواز کے ذریعے لایا گیا۔ ہوائی اڈے سے ایک بس میں ان مسافروں کو سوار کر کے سخت نگرانی اور نگہداشت کے ایک مقام تک پہنچایا گیا۔ فرانسیسی شہری کم از کم چودہ ایام تک الگ تھلگ مقام پر رکھیں جائیں گے۔
تصویر: Reuters/J. P. Pelissier
انڈونیشی مسافروں کی روانگی
پہلی فروری کو چینی شہر ٹانگے رینگ سے باتک ہوائی کمپنی کی چارٹرڈ پرواز پر ڈھائی سو انڈونیشی شہری اپنے وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ باتک ایئر لائن کا طیاہ ہوائی اڈے پر مسافروں کے سوار ہونے کا منتظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/F. Syam
ہسپانوی شہریوں کا انخلا
چین میں کام کرنے والے ہسپانوی شہری بھی واپس وطن پہنچ رہے ہیں۔ ان مسافروں کو دارالحکومت میڈرڈ کے نواح میں واقع ایک فوجی ہوائی اڈے پر اتارا گیا۔ ان مسافروں کو ہوائی جہاز سے باہر آتے ہی ایک مسافر بس کے ذریعے ایک مقام پر چودہ ایام کے لیے کوارنٹائن کر دیا گیا۔ ان ہسپانوی شہریوں کو ووہان شہر سے لایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/Moncloa
جرمن مسافروں کا انخلا
چین کے شہر ووہان سے ایک ایئر بس جرمن شہریوں کو لے کر کولون بون ایئر پورٹ پہنچی۔ ووہان ہی وہ شہر ہے جہاں سے کورونا وائرس کی نئی قسم نے جنم لیا تھا۔ یہ شہر چینی صوبے ہوبئی میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بنگلہ دیشی بھی واپس وطن روانہ
ووہان میں غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے لیے خصوصی بسوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تصویر میں بنگلہ دیشی شہری ووہان کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: bdnews24.com
ہوائی جہاز کا عملہ بھی محتاط
چین سے مختلف ممالک کے شہریوں کو واپس لانے کی چارٹرڈ پروازوں کے عملے کو بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ہدایات کی گئی ہیں۔ جہاز پر سوار ہونے والے مسافروں کو ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Retamal
وائرس سے بچو
یورپ پہنچنے والے مشرق بعید کے سیاحوں نے خصوصی ماسک پہن کر اپنا سفر شروع رکھا ہوا ہے۔ جرمن صوبے باویریا میں ایک تائیوانی خاتون سیاح نے ماسک پہنے ایک تاریخی مقام پر کھڑی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.J. Hildenbrand
چینی شہریوں کی وطن واپسی
نمونیا کا باعث بننے والے وائرس کی افزائش کے بعد چین سے جہاں غیر ملکی شہریوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے وہاں دوسرے ممالک سے بھی چینی شہریوں کو وطن واپس بھیجنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ طیارے میں تھائی لینڈ سے واپس آنے والی چینی شہری ماسک پہنے بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/Stringer
بھارتی شہریوں کے انخلا کی تیاریاں
بھارتی حکومت نے بھی ووہان میں موجود اپنے قریب ڈھائی سو شہریوں کی واپسی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت نے اس سلسلے میں ایئر انڈیا کا ایک طیارہ اسٹینڈ بائی پر رکھا ہوا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق بھارتی شہریوں کی انخلا کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Antin
چین سے پاکستانیوں کو واپس لانے پر حکومتی ہچکچاہٹ
پاکستانی حکومت نے چین میں موجود پاکستانیوں کو واپس نہ لانے کے فیصلے کو دہرایا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ چین میں پاکستانیوں کا بہتر خیال رکھا جا رہا ہے اور وائرس میں مبتلا چار پاکستانیوں کی صحت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: Hina Fatima
10 تصاویر1 | 10
چین میں پھنسے ایسے طلبہ کے حوالے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ چونکہ پاکستان کے پاس ایسی سہولیات اور ذرائع کی انتہائی کمی ہے، جو اس وبا پر قابو پانے کے لیے ضروری ہیں، اس لیے اگر یہ وائرس پاکستان پہنچ گیا اور وبائی شکل اختیار کر گیا، تو کافی زیادہ جانی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
دوسری طرف ایسے طلبہ کے والدین شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ ایسے ہی ایک طالب علم کے والد ارشد علی ابڑو نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کی طرف سے عدم توجہ پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کا بیٹا میڈیکل کا طالب علم ہے اور چینی صوبے ہوبے کے شہر جِنگ ژو میں زیر تعلیم ہے۔
ارشد علی ابڑو کے مطابق حالانکہ جِنگ ژو شہر ووہان سے تقریباﹰ ڈھائی سو کلومیٹر دور ہے مگر اب وہاں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہے اور اسی باعث یونیورسٹی اور شہری انتظامیہ نے طالب علموں کو اپنی یونیورسٹی تک ہی محدود رہنے کا حکم دیا ہے: ''اشیائے خورد و نوش کی کمی ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کی نقل و حرکت کو اس قدر محدود کر دیا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک بار پورے گروپ کے کسی ایک طالب علم کو باہر جا کر ضرورت کا سامان لانے کی اجازت ملتی ہے۔‘‘
جِنگ ژو میں ہی موجود ایک پاکستانی طالب علم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے شہر میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ محمد شہیر نامی اس طالب علم کے مطابق کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں میں ایک پاکستانی طالب علم بھی شامل ہے۔ شہیر کے مطابق اس کیس کے بعد انہیں حکام کی جانب سے اپنے کمروں تک ہی محدود رہنے کی ہدایات دے دی گئی تھیں۔
اسلام آباد حکومت نے اب تک چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طالب علموں کو واپس وطن لانے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے اور مستقبل قریب میں بھی ایسا ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
والدین اور وفاقی وزیر صحت کی ملاقات بے نتیجہ
چین میں پھنسے ہوئے پاکستانی طلبہ کے والدین آج 19 فرووی کو اسلام آباد میں جمع ہوئے، جہاں حکومت نے انہیں اس سلسلے میں بات چیت کے لیے بلایا تھا۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے صحت سے متعلقہ امور کے خصوصی معاون ڈاکٹر ظفر مرزا اور خصوصی مشیر زلفی بخاری اس ملاقات میں شریک ہوئے تاہم اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ اس موقع پر ان والدین نے حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت پاکستانی طلبہ کو چین سے واپس لانے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے اور انہیں چین سے ایسے طالب علموں کی واپسی کے سلسلے میں نہ تو کسی لائحہ عمل سے آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس سے بچنے کے ليے احتیاطی تدابیر
دنیا کے کئی ممالک میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے اب ماسک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے ميں کئی اور طریقے بھی موثر ثابت ہو سکتے ہیں، جن میں سے چند ایک ان تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/Stringer
کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے
یہ ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ ماسک وائرل انفیکشن کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں يا نہيں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ناک پر چڑھانے سے قبل ماسک ميں پہلے سے بھی جراثیم پائے جاتے ہيں۔ ماسک کا ايک اہم فائدہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی ناک اور منہ سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بیماری کی صورت میں یہ ماسک دوسرے افراد کو آپ سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/Stringer
جراثیم دور کرنے والے سیال مادے کا استعمال
اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی ہدايات میں عالمی ادارہٴ صحت نے چہرے کے ماسک کا ذکر نہیں کیا لیکن ان ہدايات میں سب سے اہم ہاتھوں کو صاف رکھنا ہے۔ اس کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے جراثم کش سیال مادے کے استعمال کو اہم قرار دیا ہے۔ یہ ہسپتالوں میں داخلے کے مقام پر اکثر پايا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
صابن اور پانی استعمال کریں
ہاتھ صاف رکھنے کا سب سے آسان طریقہ صابن سے ہاتھ دھونا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس انداز میں بڑی توجہ سے ہاتھ دھوئے جائيں۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Klose
کھانسی یا چھینک، ذرا احتیاط سے
ڈاکٹروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ کھانسی کرتے وقت اور چھینک مارتے ہوئے اپنے ہاتھ ناک اور منہ پر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر ٹِشُو پیپر بھی منہ پر رکھنا بہتر ہے۔ بعد میں اس ٹِشُو پیپر کو پھینک کر ہاتھ دھو لینے چاہییں۔ نزلہ زکام کی صورت میں اپنے کپڑے معمول سے زیادہ دھونا بھی بہتر ہوتا ہے۔ ڈرائی کلین کروا لیں تو بہت ہی اچھا ہے۔
تصویر: Fotolia/Brenda Carson
دور رہنا بھی بہتر ہے
ایک اور احتیاط یہ ہے کہ سارا دن دفتر میں کام مت کریں۔ بخار کی صورت میں لوگوں سے زیادہ میل جول درست نہیں اور اس حالت میں رابطے محدود کرنا بہتر ہے۔ بیماری میں خود سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مناسب ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
بیمار ہیں تو سیر مت کریں، ڈاکٹر کے پاس جائیں
بخار، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری ہے تو طبی نگہداشت ضروری ہے۔ بھیڑ والے مقامات سے گریز کریں تاکہ بیماری دوسرے لوگوں ميں منتقل نہ ہو۔ ڈاکٹر سے رجوع کر کے اُس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Mikheyev
بازار میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو مت چھوئیں
کورونا وائرس کے حوالے سے یہ بھی ہدایت جاری کی جاتی ہيں کہ مارکیٹ یا بازار میں زندہ جانوروں کو چھونے سے اجتناب کریں۔ اس میں وہ پنجرے بھی شامل ہیں جن میں مرغیوں یا دوسرے جانوروں کو رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW
گوشت پوری طرح پکائیں
گوشت کو اچھی طرح پکائیں۔ کم پکے ہوئے یا کچا گوشت کھانے سے گریز ضروری ہے۔ جانوروں کے اندرونی اعضاء کا بھی استعمال احتیاط سے کریں۔ اس میں بغیر گرم کیا ہوا دودھ بھی شامل ہے۔ بتائی گئی احتیاط بہت ہی ضروری ہیں اور ان پر عمل کرنے سے بیماری کو دور رکھا جا سکتا ہے۔ صحت مند رہیں اور پرمسرت زندگی گزاریں۔
تصویر: picture-alliance/Ch. Mohr
8 تصاویر1 | 8
ارشد علی ابڑو کے مطابق نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت کے علاوہ کئی افریقی ملک بھی خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے طلبہ کو چین سے واپس لے جا چکے ہیں مگر پاکستان ابھی تک اس کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بچے خود اپنے خرچے پر بھی واپس آ سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت اس پر بھی تیار نہیں ہے۔ ابڑو نے کہا کہ ان طلبہ کو خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستان واپس لایا جائے اور انہیں احتیاطاﹰ کسی جگہ دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھا جائے تاکہ اگر کورونا وائرس کا کوئی خطرہ ہو بھی تو اس سے بچا جا سکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر آپ ہمارے بچوں کو واپس نہیں لا سکتے تو کم از کم انہیں چین میں ہی کسی ایسی جگہ منتقل کیا جائے، جہاں ان کے اس خطرناک وائرس سے متاثر ہونے کا امکان نہ ہو۔‘‘
ارشد علی ابڑو نے اپنی گفتگو میں یہ بھی پوچھا کہ آیا پاکستانی حکومت اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ روشن قومی مستقبل کی خاطر اعلیٰ تعلیم کے لیے چین جانے والے یہ پاکستانی طلبا و طالبات اس مہلک وائرس کا شکار ہو جائیں؟ انہوں نے کہا، ''اگر حکومت نے مناسب اقدامات نہ کیے تو پھر والدین احتجاج کا راستہ اپنائیں گے کیونکہ وہ حکومت کی طرح اپنے بچوں کو لاوارثوں جیسا نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘