پاکستان میں ملبوسات کے ایک برانڈ نے اپنی تشہیری مہم کے لیے ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں لڑکیاں لاہور کے انارکلی بازار میں بغیر کسی خوف یا ڈر کے رقص کر رہی ہیں۔
اشتہار
اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر خواتین کی آزادی کے حوالے سے ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ لڑکیاں پہلے سے انارکلی بازار میں موجود ہیں اور ایک لڑکی چادر پہنے رکشہ سے اترتی ہے اور اسے بازار میں ہی ایک لڑکا ’ماشااللہ‘ کہتے ہوئے چھیڑتا ہے۔ بعد کے سین میں یہ لڑکیاں انارکلی بازار میں ڈانس کرتی ہیں۔
کیا یہ ویڈیو ایک مثبت یا منفی پیغام دے رہی ہے؟ اس حوالے سے لوگوں کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ کئی افراد نے اس اشتہاری مہم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح سے خواتین کو دکھانے سے یہ نا تو مضبوط یا طاقتور ہو رہی ہیں اور نہ ہی اس طرح سے زیادہ خودمختاری حاصل کی جا سکتی ہے۔
ماضی میں پاکستان میں میڈیا اینکر کے طور پر کام کرنے والی فائزہ داؤد نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا،’’میں ایک پاکستانی عورت ہوں، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ مجھے بتایا جائے کہ مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، اس ویڈیو میں اظہار رائے کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورتوں کا استحصال دکھایا گیا ہے۔‘‘
فیس بک کی ایک اور صارف فائزہ مراد نے اس ویڈیو کے حوالے سے فیس بک پر لکھا،’’میں خواتین کو خود مختار دیکھنا چاہتی ہوں لیکن میرا نہیں خیال کے میں خود مختاری سٹرک پر ڈانس کر کے حاصل کر سکتی ہوں۔ میں یہ بھی مانتی ہوں کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی رائے قائم کرے۔‘‘ فائزہ نے یہ بھی لکھا کہ ’Do Your Own Thing‘ نامی برانڈ نے اس ویڈیو سے کافی شہرت حاصل کر لی ہے۔
فیس بک صارف حسن رضا نے لکھا،’’عورتوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، خواتین کو تعلیمی اور اقتصادی طور پر خود مختار ہونا چاہیے لیکن رقص کرنا بھی کوئی غلط کام نہیں، عورت اپنے فیصلوں کے لیے مکمل طور پر آزاد ہونی چاہیے۔‘‘
کالم نگار بینا شاہ نے اس ویڈیو کے حوالے سے پاکستانی اخبار ڈان میں اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اس اشتہار کو بہتر بنایا جاسکتا تھا اگر اس میں دکھایا جاتا کہ آخر میں مرد اور خواتین آپس میں بات چیت کر رہے ہیں لیکن اس ویڈیو میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی چڑیا گھر میں قید جانوروں کو لوگ دیکھ رہے ہیں۔‘‘
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔