سونے کی پیداوار حالیہ ماہ و سال سے اپنے عروج پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کے ذخائر تقریباً دریافت کر لیے گئے ہیں۔ امکان ہے کہ اگر ایسا ہے تو اس دھات کے لیے سرمایہ کاروں کا جوش ٹھنڈا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
گزشتہ دو برسوں سے ایسی سرگوشیاں جاری ہیں کہ دنیا بھر میں دستیاب سونے کے ذخائر میں کمی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ کئی ماہرین اور صنعت کاروں سمیت کانوں میں سے سونے نکالنے والی بڑی کینیڈین کمپنی گولڈ کورپ کے سربراہ ایان ٹیلفر بھی کہہ چکے ہیں کہ قیمتی زرد دھات کے حصول کی کوششیں اپنے عروج کو پہنچ گئی ہیں۔ ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ اب دنیا بھر میں کوئی نیا سونے کا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔
ورلڈ گولڈ کونسل
اس وقت سونے کے حصول کا گراف نیچے کی جانب آنا شروع ہو گیا ہے۔ کونسل کے ماہرین کے مطابق اب دنیا میں کوئی بہت بڑے ذخائر کی موجودگی کا امکان بہت ہی کم ہے۔ اسی طرح کان کنی میں ایک ٹن میں سے سونے کی مقدار کا حصول بھی کم ہو گیا ہے۔ سن 1970 میں یہ ایک ٹن میں دس گرام ہوتا تھا اور اب یہ 1.4 گرام فی ٹن ہو گیا ہے۔
سونے کی صنعت میں انضمام کا سلسلہ
عالمی سطح پر گولڈ انڈسٹری میں گراوٹ کے تناظر میں کمپنیوں کا آپس میں انضمام شروع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں دو بڑی کمپنیوں بیرک گولڈ اور نیو مونٹ مائننگ میں انضمام کی اربوں ڈالر کی ڈیل طے پائی ہے۔ کینیڈین کمپنی گولڈ کورپ کی دس بلین امریکی ڈالر میں فروخت کی بات چیت بھی مکمل ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ سونے کی کان کنی میں اب محنت و مشقت کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری زیادہ اور منافع کم ہونے لگا ہے۔
قیمتوں کا تعین
ماہرین کا خیال ہے کہ سونے کی کان رکھنے والوں کے لیے کم قیمت دینے سے مراد سونے کی قلت کا احساس ہے۔ یہ عام تاثر ہے کہ اس قلت میں اضافہ ہوا تو موجودہ تیرہ سو ڈالر فی اونس کی قیمت دو ہزار فی اونس تک پہنچ جائے گی۔ سن 2011 میں سونے کے فی اونس کی قیمت اٹھارہ سو امریکی ڈالر تک پہنچی تھی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا میں سونے کی قلت نہیں ہے لیکن موجودہ قیمت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ واقعی سونا اب کم ہونے لگا ہے۔ قیمتیں کم ہونے پر کانوں سے سونے کو نکالنے کا عمل سست کر دیا جاتا ہے اور یہی عمل پھر قیمت کا تعین کرتا ہے۔
اب نیا کیا ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے سونے کے ذخائر کی تلاش کے عمل کو وسیع کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کانوں سے سونا نکالنے پر چالیس فیصد سرمایہ کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکا سے آتا ہے۔ اب لاطینی امریکا اور افریقہ کے مزید علاقوں کی جانب کان کنی کے لیے رخ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
سونے کی کشش
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانوں میں سے سونے کے حصول میں ممکنہ کمی تو ہو سکتی ہے لیکن زیورات کے لیے سونے کی کشش کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ زیورات کے لیے سونے کی طلب میں تیس فیصد تک اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ یہ زیورات امیر بھی خریدتے ہیں اور متوسط طبقہ بھی۔ ہر سال دنیا بھر کی کانوں سے تین ہزار ٹن سونا نکالا جاتا ہے۔ ایک ماہر کا خیال ہے کہ مستقبل میں سونے کی سپلائی ری سائیکلنگ پر زیادہ اور کان کنی پر کم ہو گی۔
فرانسیسی ملکہ میری اینٹونیٹ کے زیورات کی نیلامی
انقلاب فرانس سے قبل کی ملکہ میری اینٹونیٹ کے ذاتی زیورات جنیوا کے مشہور نیلام گھر میں فروخت کیے جائیں گے۔ ان زیورات کو فرانسیسی ملکہ نے انقلاب کے بعد پیرس سے باہر منتقل کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
تاریخی زیورات
نیلام کیے جانے والے بیش قیمت زیورات میں موتیوں سے جڑے نیکلس، ہیرے اور ملکہ کے بالوں کی لٹ والی انگوٹھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو تقریباً دو صدیوں کے بعد جنیوا میں قائم ’سدے بیز‘ نیلام گھر میں فروخت کیا جائے گا۔ یہ زیورات فرانسیسی ملکہ کے زیراستعمال رہے تھے۔ سدے بیز کی ترجمان کے مطابق یہ انتہائی تاریخی نوادرات کی نیلامی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/F. Augstein
میری اینٹونیٹ: آسٹریا سے تعلق رکھنے والی فرانسیسی ملکہ
فرانس کی مشہور ملکہ میری اینٹونیٹ ویانا میں دو نومبر سن 1755 پیدا ہوئی تھیں۔ وہ آسٹریائی ملکہ ماریا تھریسا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ سن 1793ء میں انقلاب فرانس کے بعد انقلابی عدالت کے فیصلے کے تحت صرف اڑتیس برس کی ملکہ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور نعش ایک گمنام قبر میں پھینک دی گئی۔ اُن کی شادی فرانسیسی باشاہ لوئی اگسٹ سے ہوئی تھی۔
موتی اور ہیرے سے سجا ہار کا آویزہ
نیلامی کے لیے میری اینٹونیٹ کے گلے کا آویزہ بھی رکھا گیا ہے۔ اس میں جڑا قدرتی موتی اٹھارہ ملی میٹر لمبا ہے۔ توقع ہے کہ اس کی نیلامی ایک سے دو ملین ڈالر کے درمیان ممکن ہے۔ اس موتی والے آویزے کو فرانسیسی ملکہ نے صرف ایک مرتبہ پہنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
شاہی زیورات کا عالمی دورہ
نیلامی کے لیے رکھے گئے شاہی زیورات میں ہیرے کا بروچ اور کانوں کے پہننے والی بالیاں بھی شامل ہیں۔ ان زیورات کو نیلام کرنے سے قبل ہانگ کانگ، نیویارک، میونخ اور لندن سمیت دنیا کے کئی شہروں میں نمائش کی گئی تھی تا کہ خریدار نیلامی کے وقت اپنی بولی کا تعین کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
گلابی ہیرے اور بالوں کی چھوٹی سے لِٹ
ایک ایسی انگوٹھی بھی نیلام کے لیے موجود ہے، جس پر ملکہ میری اینٹونیٹ کے نام کے ابتدائی حروف ایم اے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں گلابی ہیرے جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی انگوٹھی میں ملکہ کے بالوں کی ایک لٹ بھی موجود ہے۔ اس وقت یہ تمام زیورات اطالوی شاہی خاندان بوربن پارما کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خاندانی زیورات کی واپسی
انقلاب فرانس کے بعد ملکہ میری اینٹونیٹ نے فرار کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش سے قبل اپنے زیورات ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر برسلز روانہ کر دیے تھے، جہاں سے یہ صندوق آسٹریائی بادشاہ کو پہنچا دیا گیا۔ ملکہ کے فرار کا منصوبہ ناکام ہو گیا لیکن اُن کی اکلوتی بیٹی تھریسا کو سن 1795 میں رہا کر دیا گیا اور جب وہ آسٹریا پہنچی تو لکڑی کا صندوق انہیں دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
شاہی تاج کے ہیرے
جنیوا کے سدے بیز کے نیلام گھر میں جو تاریخی اشیاء نیلامی کے لیے رکھی ہوئی ہیں، ان میں ملکہ میری اینٹونیٹ کے دوست اور شوہر کے بھائی چارلس دہم کے ملکیتی ہیرے بھی شامل ہیں۔